Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

علیزہ نانو کے ساتھ لاؤنج میں ہی بیٹھی ہوئی تھی، جب اسے باہر پورچ میں کسی گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔
”شاید شہلا آئی ہے۔” نانو نے اس سے کہا۔
”نہیں یہ شہلا کی گاڑی کی آواز نہیں ہے۔ ” علیزہ نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ اسی وقت عمر لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ علیزہ بے اختیار خوش ہوئی۔ کچھ دیر پہلے وہ بے بسی کے جس احساس سے دوچار تھی، وہ یک دم غائب ہو گیا تھا۔
”ہیلو۔” عمر کا لہجہ بالکل خوشگوار نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
”اچھا ہوا عمر! تم آگئے۔ یہ علیزہ بہت پریشان ہو رہی تھی۔ فون ڈیڈ ہے اور باہر موجود پولیس گارڈ کسی کو اندر آنے دے رہا ہے نہ ہی باہر جانے دے رہا ہے۔ علیزہ مارکیٹ تک جانا چاہتی تھی، تم اسے لے جاؤ۔” نانو نے عمر کو دیکھتے ہی کہا۔
”مارکیٹ تک کس لئے؟” عمر نے علیزہ کو بڑے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب اس کے قریب صوفہ پر بیٹھ رہا تھا۔



”وہ شہلا کو فون کرنا چاہتی ہے۔” نانو نے کہا۔
”کس لئے؟”
”وہ اسے بلانا چاہ رہی ہے یہاں۔”
”ٹھیک ہے میرا موبائل لے لو اس پر کال کرو اسے۔” عمر نے اپنا موبائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”ہاں اس پر کال کر لو۔” علیزہ نے اس سے موبائل لے لیا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”تم کہاں جا رہی ہو؟” عمر نے اسے اٹھتے دیکھ کر ٹوکا۔
”اپنے کمرے میں۔”
”میرے سامنے بات کرو شہلا سے۔”
”ہاں علیزہ یہیں فون کر لو۔ نانو نے بھی مداخلت کی۔”
علیزہ نے چونک کر عمر کو دیکھا، اس کے چہرے پر سنجیدگی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔
”نہیں نانو! میں یہاں فون نہیں کر سکتی۔” اس نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے کہا۔
”گرینی میں ابھی آتا ہوں۔”
علیزہ نے چلتے چلتے عمر کو کہتے سنا، وہ اب اس کی طرف آرہا تھا۔ علیزہ کچھ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اب اس کے قریب آکر بڑی نرمی سے اس کے ہاتھ سے موبائل لے رہا تھا۔
”آؤ تمہارے کمرے میں چلیں، کچھ باتیں کرنی ہیں تم سے۔”
وہ قدرے مدہم مگر مستحکم آواز میں کہہ رہا تھا۔
”مجھے بھی آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔” وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولی۔
وہ دونوں کمرے میں آگئے۔ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہی علیزہ نے عمر سے کہا۔
”آپ نے دیکھا عباس نے ان چاروں کے ساتھ کیا کیا ہے؟”
عمر نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
”علیزہ بیٹھ جاؤ اور پھر بات کرو۔” وہ صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”عباس نے ان چاروں کو قتل کر دیا ہے یہ کہہ کر کہ وہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ یہ سب جھوٹ ہے، آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں۔ سب کچھ آپ کے سامنے ہی تو ہوا تھا۔”
عمر اب خود بھی دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا تھا اور بڑے اطمینان سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”اس نے چاروں کے ساتھ وہی کیا جو انکل ایاز نے شہباز کے ساتھ کیا… مجھے اب آپ کی بات پر یقین آگیا ہے، آپ تب سچ کہہ رہے تھے۔” وہ کہتی جا رہی تھی، عمر نے کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
”آپ شہباز کے بارے میں کچھ نہیں کر سکے، مگر ان چاروں کے بارے میں ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ اور میں گواہ ہیں سب کچھ ہمارے سامنے ہوا تھا۔ ہم عباس کو ایک غلط کام کے لئے سزا دلوا سکتے ہیں۔”
وہ اب بھی بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔



”کیا یہ ضروری ہے کہ ہر غلط کام کرنے کے بعد عباس اور انکل ایاز جیسے لوگ بڑی آسانی سے بچ جائیں۔ کبھی تو انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ وہ ہر کام غلط طریقے سے کر رہے ہیں، ان کے نزدیک انسانی زندگی کی اہمیت کیوں نہیں ہے۔”
اسے بات کرتے کرتے محسوس ہوا کہ عمر نے اب تک اس کی کسی بات کی تائید نہیں کی تھی، نہ منہ سے نہ چہرے کے کسی تاثر سے۔ وہ یک دم خاموش ہو گئی ۔ لاشعوری طور پر وہ یہ توقع کر رہی تھی کہ عمر اس کی ہر بات کی نہ صرف تائید کرے گا بلکہ فوراً اس کی مدد کی ہامی بھی بھر لے گا۔ مگر وہ … وہ اس کے سامنے بے تاثر چہرے کے ساتھ بالکل خاموش بیٹھا ہوا تھا۔
”کچھ اور بھی کہنا ہے تمہیں؟ یا بس یہی سب کہنا تھا؟” اس کے یک دم خاموش ہونے پر اس نے کہا۔ اس کا لہجہ اتنا عجیب تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود ایک لفظ بھی نہیں بول سکی۔
”میرا نام کیوں نہیں شامل کیا تم نے اس لسٹ میں… ایاز انکل، عباس حیدر اور عمر جہانگیر؟” وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
”مجھ کو بھی اس کیٹیگری میں رکھو۔”
”عمر! میں۔۔۔”
عمر نے ہاتھ اٹھا کر اس کی بات کاٹ دی۔ ”زندگی میں جو لوگ دماغ کو استعمال نہیں کرتے، وہ ہمیشہ منہ کے بل گرتے ہیں اس لئے اپنے دماغ کو استعمال کرنا سیکھو۔” اس بار اس کی آواز میں تلخی تھی۔
”اور جو لوگ صرف دماغ استعمال کرتے ہیں، وہ کیسے گرتے ہیں؟”
”وہ گر سکتے ہیں مگر منہ کے بل نہیں۔ عباس نے ایک صحیح کام لیا۔”
”اس نے آپ کی برین واشنگ کر دی ہے ورنہ آپ اس طرح کے قتل کو تو کبھی صحیح ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔” وہ بے اختیار برہمی سے بولی۔ وہ عجیب سے انداز میں ہنسا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!