”جنید کے پیرنٹس آئے ہیں۔ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔” ثمینہ نے اس کے کمرے میں آکر اسے اطلاع دی۔
”میں ان سے ملنا نہیں چاہتی۔ آپ معذرت کر لیں، کوئی ایکسکیوز دے دیں۔” علیزہ نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب بند کرتے ہوئے کہا۔
”ان سے یہی کہہ دیتی ہوں کہ تم ان سے ملنا نہیں چاہتیں۔”
ثمینہ نے واپس مڑتے ہوئے کہا علیزہ خاموش رہی۔ اس سارے معاملے میں وہ اگر کسی سے واقعی شرمندہ تھی تو وہ جنید کی فیملی اور خاص طور پر اس کے والدین ہی تھے۔ اس نے ثمینہ سے کچھ نہیں کہا وہ کمرے سے نکل گئیں۔
علیزہ نے کتاب کو ایک طرف رکھ دیا۔ وہ پہلے بھی کچھ پڑھ نہیں پا رہی تھی اور اب اس کا جی کچھ اور اچاٹ ہو گیا تھا۔ بیڈ سے اٹھ کر وہ اسٹیریو کی طرف گئی اور اس نے کیسٹ لگا لیا۔ کچھ دیر وہ کمرے میں ٹہلتی ہوئی میوزک سنتی رہی پھر یکدم اس نے اسٹیریو کو بھی آف کر دیا۔
صرف دو دن پہلے سب کچھ نارمل تھا سب کچھ اور اب سب کچھ ایک خواب لگ رہا تھا۔ وہ اب ایک عجیب سے اضطراب کا شکار ہو رہی تھی۔ بار بار وہ اپنے ذہن سے جنید، اس کے گھر والوں اور اس کے گھر کو جھٹکنے کی کوشش کر رہی تھی اور بری طرح ناکام ہو رہی تھی۔
کمرے کے دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔
”یس کم ان!” اس نے رک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والی نانو اور جنید کی امی تھیں۔ علیزہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ جنید کی امی نانو کے ساتھ یوں اچانک کمرے میں آ جائیں گی۔ اس سے بہتر تھا وہ ان سے ملنے کے لیے خود باہر چلی جاتی۔
”علیزہ! مسز ابراہیم تم سے ملنا چاہ رہی تھیں۔ میں انہیں یہاں لے آئی۔” نانو نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
”آپ بیٹھیں مسز ابراہیم! میں چائے یہیں بھجوا دیتی ہوں۔ آپ علیزہ کے ساتھ چائے پئیں۔”
نانو نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے جنید کی امی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اور کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر نکل گئیں۔
”آپ بیٹھیں پلیز!” علیزہ نے قدرے ہکلاتے ہوئے جنید کی امی سے کہا۔ اسے اندازہ تھا اس وقت اس کے چہرے پر کتنے رنگ آرہے ہوں گے۔ وہ صوفہ پر بیٹھ گئیں۔
”تم بھی بیٹھو۔” جنید کی امی نے صوفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ جھجکتی ہوئی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
”جنید نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔” انہوں نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔ علیزہ انہیں دیکھنے لگی۔”عمر کو ہمارے گھر آتے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہے۔ جنید اور اس کی دوستی بہت پرانی ہے۔ پرانی دوستیوں میں بہت زیادہ جذبات اور احساسات انوالو ہو جاتے ہیں۔ اٹیچ منٹ بہت گہری ہو جاتی ہے اور عمر تو ہمارے لیے ہمارے گھر کے ایک فرد جیسا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ تم اسے کیوں اتنا ناپسند کرتی ہو، یقیناً تمہارے پاس بھی اسے ناپسند کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو گی بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے پاس اسے پسند کرنے کی وجوہات ہیں، مگر عمر کو تمہارے اور جنید کے درمیان مسئلہ نہیں بننا چاہیے۔”
وہ چند لمحوں کے لیے رکیں۔
”جنید تم سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت عمر کی وجہ سے نہیں ہے۔ علیزہ تم ابھی ہمارے گھر نہیں آئی ہو، لیکن تم پچھلے ایک سال سے ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ ہو۔ ہم سب کو بہت عادت ہو گئی ہے تمہاری یہ شادی نہ ہونے سے صرف جنید متاثر نہیں ہوگا ہم سب متاثر ہوں گے اور تم بھی متاثر ہو گی۔ تمہیں جنید سے ناراضی کا حق ہے لیکن اس ناراضی میں کم از کم تمہیں تو جنید جیسی کوئی احمقانہ حرکت یا قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔” وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔ ”ہم سب نے ہی تم سے عمر کے بارے میں چھپایا مگر یہ اس لیے نہیں تھا کہ ہم تمہیں دھوکہ دینا چاہتے تھے، یہ صرف اس لیے تھا کیونکہ ہم لوگ تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔ عمر تو جنید کا صرف دوست ہے مگر تم تو ہماری فیملی کا حصہ بن جاؤ گی۔ ہمارے لیے کس کی اہمیت زیادہ ہے تم اندازہ کر سکتی ہو، جنید کے لیے کس کی اہمیت زیادہ ہے یہ بھی تم جان سکتی ہو، تمہیں اگر یہ ناپسند ہے کہ عمر ہمارے گھر آئے تو میں عمر کو منع کر دوں گی۔ وہ گھر نہیں آئے گا مگر جہاں تک جنید اور عمر کی دوستی کا تعلق ہے اس کو رہنے دو۔ علیزہ! ان کے اس تعلق سے تمہاری اور جنید کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ میں تمہیں اس بات کی گارنٹی دیتی ہوں مگر اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح رشتوں کو ختم کرنا کم از کم میں تم سے اس کی توقع نہیں کرتی ۔ علیزہ! ہم سب بہت پریشان ہیں نہ صرف ہم بلکہ جنید بھی۔ میں چاہتی ہوں کچھ بھی ختم نہ ہو سب کچھ ویسا ہی رہے۔ جنید میرے ساتھ آیا ہوا ہے اور تم سے معذرت کرنے کے لیے تیار ہے۔”
علیزہ بالکل لاجواب تھی۔ وہ جنید کے گھر والوں کا سامنا کرتی کجا یہ کہ ان سے بات کرتی مگر جنید کی امی اس طرح اچانک اس کے پاس آگئی تھیں کہ وہ اپنی مدافعت کے لیے ان سے کچھ بھی نہیں کہہ پائی تھی۔
”ہماری زندگی ہمیشہ سے بڑی smooth (ہموار) رہی ہے، ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس طرح اچانک ہماری زندگی میں کوئی کرائسس آئے گا۔”
وہ ایک بار پھر کہنے لگیں۔ علیزہ کے اعصاب کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا، وہاں بیٹھے ایک دم اسے اپنی ہر دلیل بے کار اور اپنا اقدام بچکانہ لگنے لگا تھا۔
”اس لیے ہم تو سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ ہم کیا کریں، ابھی بہت زیادہ لوگوں کو پتہ نہیں چلا مگر…کچھ دنوں میں…نہیں علیزہ! ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تمہاری میری فیملی کے ساتھ اتنی وابستگی تو ہے کہ تم ہماری فیلنگز کو سمجھ سکو، اس شرمندگی اور بے عزتی کا اندازہ کر سکو جس کا سامنا میری فیملی کو کرنا پڑے گا اور صرف میری نہیں تمہاری فیملی کو بھی، میں حیران ہوں کہ اتنی چھوٹی سی بات پر تم نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا۔ کیا تم نے اس کے نتائج کے بارے میں سوچا تھا۔”
علیزہ ان کے احساسات اور ذہنی کیفیات کو سمجھ رہی تھی، وہ یقیناً بہت زیادہ پریشان تھیں۔ علیزہ کے پاس اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ خاموش بیٹھی رہی جنید کی امی بہت دیر تک اسے سمجھاتی رہی تھیں اور شاید اس کی یہ مسلسل خاموشی انہیں حوصلہ افزا لگی تھی، وہ بہت دیر کے بعد اگلے دن دوبارہ آنے کا کہہ کر رخصت ہو ئیں۔