Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

وہ صبح کی فلائٹ سے اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔ ایئرپورٹ پر اسے لئیق انکل کی بڑی بیٹی شانزہ نے ریسیو کیا۔ وہ شانزہ سے پہلے بھی دو تین بارمل چکا تھا اس لیے اسے کوئی اجنبیت نہیں ہوئی تھی، مگر جس موڈ میں وہ ان دنوں تھا بہت کوشش کے بعد بھی وہ اس طرح شانزہ سے بات نہیں کرسکا جیسے پہلے کرتا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ کھنچا کھنچا تھا اور شانزہ نے یہ بات فوراً محسوس کرلی تھی۔
ایئرپورٹ سے گھر جاتے ہوئے گاڑی میں اس نے عمر سے خاصی بے تکلفی سے کہا۔
”تم خاصے سیریس ہوگئے ہو عمر! چھ ماہ پہلے جب تم سے ملاقات ہوئی تھی تو تم خاصے جولی ہوا کرتے تھے۔ اب کیا ہوا ہے؟”
‘نہیں، میں ویسا ہی ہوں، کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پتا نہیں تمہیں کیوں ایسا لگا ہے۔” عمر نے مسکرا کر کہا۔
”چلو ٹھیک ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔”
”لئیق انکل تو اس وقت آفس میں ہوں گے؟” عمر نے بات شروع کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں! پاپا تو آفس میں ہی ہیں۔ اسی لیے تو میں لینے آئی ہوں تمہیں۔ اگر تمہاری فلائٹ رات کو ہوتی تو وہ خود تمہیں لینے آتے۔ تم اب گھر جانے کے بعد انہیں رنگ کرلینا۔ انہوں نے خاص طور پر کہا ہے۔”
”میں سوچ رہا ہوں کہ انکل کے آفس ہی چلا جاتا ہوں۔ وہاں۔۔۔”
شانزہ نے عمر کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔ ”وہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ آج تھوڑی دیر ہی وہاں رہیں گے… پھر انہیں دو تین جگہوں پر جانا ہے… آج کل آفس میں ان کا زیادہ وقت نہیں گزرتا بلکہ کچھ دوسری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔” شانزہ نے لاپروائی سے کہا۔
”اس کا مطلب ہے کہ آج کا دن تو ایسے ہی نکل جائے گا۔” عمر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔



”تمہیں جلدی کس بات کی ہے۔ آج کا دن گزر جائے گا تو پھر کیا ہے۔ تم آرام سے یہاں رہ کراپنا کام کرو۔ دن گننے کی کوشش نہ کرو، ویسے بھی پاپا بتا رہے تھے کہ انکل جہانگیر نے تمہیں ابھی اسلام آباد رہنے کیلئے ہی کہا ہے۔”
عمر نے اس بات پر ایک گہرا سانس لے کر کھڑکی سے باہر جھانکا۔
”ویسے عمر! انکل جہانگیر کا ٹیسٹ بہت اچھا ہے۔” عمر نے چونک کر شانزہ کی طرف دیکھا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ تھی۔
”رشنا کسی کو گھاس تک نہیں ڈالتی تھی… شادی تو دور کی بات تھی مگر دیکھ لو۔۔۔”
عمر نے بے اختیار اپنا نچلا ہونٹ بھینچ لیا۔
”میں نے ایک دو شوز میں ماڈلنگ کی ہے اس کے ساتھ، وہ واقعی بہت اٹریکٹو اور گلیمرس ہے۔” شانزہ اب اس کی تعریف کر رہی تھی۔
”تم ماڈلنگ کرنے لگی ہو؟” عمر نے دانستہ طور پر بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”پروفیشنلی تو نہیں بس ایڈونچر کے طور پر… ممی کی ایک فرینڈ کے کہنے پر لیڈیز کلب کے ایک فنکشن میں کی تھی… رسپانس بہت اچھا ملا اور وہیں ایک میگزین کی ایڈیٹر نے ایک فیشن شوٹ کے لئے کہا۔ بس پھر آہستہ آہستہ کچھ اور فیشن شوز بھی ملنے لگے۔ بلکہ اب تو ایک ٹی وی سیریل کا کانٹریکٹ بھی سائن کیا ہے۔ لیڈنگ رول نہیں ہے مگر اچھا رول ہے۔ مجھے تو بس یہ خوشی ہے کہ بہت اچھی کاسٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا۔”
شانزہ نے بہت جوش سے اپنے بارے میں تفصیل سے بتانا شروع کردیا تھا۔
”اچھی ایکٹیویٹی ہے۔” عمر نے سرسری سا تبصرہ کیا۔
”اس ویک اینڈ پر ایک فیشن شو میں حصہ لے رہی ہوں، تم چلنا ساتھ۔” شانزہ نے فوراً اسے آفر کی۔
”نہیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے فیشن شوز میں۔” عمر نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
”کیا؟ تمہیں کوئی انٹرسٹ ہی نہیں ہے حالانکہ تمہاری ممی خود اتنی مشہور ماڈل رہ چکی ہیں۔ پھر بھی تمہیں انٹرسٹ نہیں ہے۔”
عمر نے اس کی بات کا جواب ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے دیا۔ گاڑی میں کچھ دیر کیلئے خاموشی چھاگئی۔
”ویسے انکل جہانگیر نے تمہیں رشنا سے شادی کے بارے میں بتایا تھا۔ میرا مطلب ہے شادی سے پہلے؟”
ایک بار پھر شانزہ نے ہی خاموشی توڑی۔ گفتگو کا موضوع ایک بار پھر وہی ہوگیا تھا جس سے عمر بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”ہاں۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”اور تم نے کچھ کہا نہیں۔ کوئی اعتراض؟”
”میں اعتراض کیوں کرتا۔ یہ پاپا کی زندگی ہے، وہ جو چاہیں کریں۔” اس نے بڑی سرد مہری اور لاپروائی سے کہا۔
”ہاں! ویسے بھی انکل جہانگیر کی شادی سے تمہیں تو زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ تمہاری ممی سے تو پہلے ہی ان کی سیپریشن ہوچکی ہے۔ اعتراض تو ثمرین آنٹی نے کیا ہوگا۔ پاپا بتارہے تھے کہ انہوں نے سوسائٹیڈ کی کوشش کی تھی اس شادی سے کچھ دن پہلے۔۔۔”
عمر یک دم چونک گیا۔ شانزہ کے پاس وہ ساری معلومات تھیں جو اس کے پاس ہونی چاہیے تھیں۔ لئیق انکل سے اس کے پاپا کی بہت گہری دوستی تھی۔ صرف رشتہ داری نہیں تھی۔



”سوسائیڈ؟” اس نے کچھ حیران ہو کر کہا۔
”تمہیں نہیں پتا؟”
”نہیں۔”
”ثمرین آنٹی خوش قسمتی سے بچ گئیں اور انکل جہانگیر اتنے غصے میں آگئے کہ انہوں نے ثمرین آنٹی کو ڈائی وورس (طلاق) کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر پاپا اور دوسرے انکلز نے ثمرین آنٹی کی ریکویسٹ پر انہیں سمجھایا۔ انکل جہانگیر بڑی مشکل سے اس کام سے باز آئے۔ ڈائی وورس تو انہوں نے نہیں دی مگر ثمرین آنٹی کو یہاں اسلام آباد شفٹ کر رہے ہیں۔ اب وہ انہیں ساتھ رکھنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہاں امریکہ میں بھی انہوں نے ثمرین آنٹی کو کسی اپارٹ منٹ میں شفٹ کردیا ہے۔ اپنے ساتھ انہوں نے رشنا کو رکھا ہوا ہے۔”
وہ خاموشی سے شانزہ کی گفتگو سن رہا تھا۔
”سوائے میرے اور گرینڈ پا اور گرینی کے خاندان میں سب کو پاپا کی اس متوقع شادی کے بارے میں بہت پہلے پتا چل چکا تھا مگر اس بارے میں انفارم نہیں کیا۔ ہر ایک نے یہ بات چھپائی۔” عمر کڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا اور اسے اپنے کزنز پر بھی حیرت ہو رہی تھی جن سے اس کی اچھی خاصی دوستی تھی۔
”شاید یہ اچھا ہی ہوا ورنہ جوکچھ وقت میں نے لاہور میں سکون سے گزارا ہے، وہ بھی گزار نہ پاتا۔” وہ اب سوچ رہا تھا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!