”خود سوچو انجوائے کر رہی ہو یا نہیں۔ تم خواہ مخواہ اپنی نانو سے خوفزدہ ہو رہی تھیں۔”شہلا نے تالیاں بجاتے ہوئے بلند آواز میں علیزہ سے کہا جو خود بھی تالیاں بجانے میں مصروف تھی۔ علیزہ مسکراتے ہوئے کچھ کہے بغیر اسٹیج پر نظریں جمائے رہی جہاں سنگر اگلے گانے کی تیاری کر رہا تھا۔
وہ دونوں اس وقت ایک میڈیکل کالج میں ہونے والے ایک کنسرٹ میں موجود تھیں۔ شہلا کا بھائی اور اس کے کچھ دوست بھی اس کنسرٹ میں پرفارم کر رہے تھے۔ کنسرٹ شام کو تھا اور شہلا کا اصرار تھا کہ علیزہ بھی اس کے ساتھ وہاں چلے۔ مگر علیزہ جانتی تھی کہ نانو شام کے وقت اسے گھر سے باہر نہیں جانے دیں گی اور پھر کسی کنسرٹ میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کنسرٹ بھی ایسا جو لڑکوں کے ایک کالج میں تھا… شہلا کے اصرار کے باوجود اس نے انکار کردیا مگر شہلا نے ہار نہیں مانی تھی۔
”دیکھو! میں خود نانو سے بات کرلیتی ہوں۔” اس نے بالآخر علیزہ سے کہا۔
”بات کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں جانتی ہوں وہ نہیں مانیں گی۔”
”مان جائیں گی۔ میں انہیں یہ نہیں بتاؤں گی کہ میں تمہیں کنسرٹ پر لے جا رہی ہوں۔”
”کیا مطلب!” علیزہ حیران ہوئی۔
”میں ان سے یہی کہوں گی کہ میرے گھر پر فنکشن ہے اور میں تمہیں اس کیلئے انوائٹ کر رہی ہوں۔” شہلا نے بڑے آرام سے کہا۔
”یعنی تم نانو سے جھوٹ بولو گی؟”
”ظاہر ہے بھئی جب وہ سچ سچ بتانے پر جانے نہیں دے رہیں تو پھر جھوٹ ہی بولنا پڑے گا۔”
”نہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔” علیزہ نے صاف انکار کردیا۔
”کیوں ٹھیک نہیں ہے۔ میں بھی تو تمہارے ساتھ جارہی ہوں۔”
”مگر نانو کو پتا چل گیا تو وہ آئندہ تمہارے ساتھ کبھی کہیں نہیں جانے دیں گی بلکہ وہ مجبور کریں گی کہ میں تم سے دوستی بھی ختم کردوں۔”
”مگر انہیں پتا چلے گا ہی نہیں۔ شام چھ بجے کنسرٹ شروع ہو رہا ہے ہم آٹھ بجے تک واپس آجائیں گے۔”
”اور اگر نانو نے اس دوران تمہارے گھر فون کرلیا تو؟”
”تو میری ماما ان سے کہہ دیں گی کہ تم وہیں ہو اور بس گھر آنے والی ہو۔”
”یعنی تمہاری ماما بھی جھوٹ بولیں گی؟”
‘ہاں صرف تمہارے لیے۔”
علیزہ اس کی بات پر سوچ میں پڑ گئی، وہ خود بھی اس کنسرٹ میں جانا چاہ رہی تھی کیونکہ اس کے کالج کی بہت سی لڑکیاں وہاں جارہی تھیں مگر نانو اسے اس طرح اکیلے کبھی کنسرٹس میں نہیں بھیجتی تھیں۔ وہ ان ہی کنسرٹس میں جایا کرتی تھی جو جم خانہ میں ہوتے تھے اور جہاں نانا اور نانو بھی اس کے ساتھ ہوتے تھے۔ اس طرح لڑکوں کے کسی کالج میں کنسرٹ پر جانے کی اجازت ملنا ناممکن تھا اور اب شہلا اصرار کر رہی تھی کہ۔
”ٹھیک ہے ۔ تم نانو سے بات کرلو۔ اگر وہ اجازت دیتی ہیں تو پھر سوچ لیں گے۔” علیزہ نے نیم رضا مندی سے کہا۔
”یہ ہوئی نا بات۔”شہلا اس کی بات پر بے تحاشا خوش ہوئی۔
”مگر تم انہیں کس فنکشن کے بارے میں کہو گی؟”
”اپنی برتھ ڈے کروا دوں گی۔”
”یہ کبھی مت کرنا، انہیں تمہاری برتھ ڈے یادہے۔” علیزہ نے فوراً منع کیا۔
”تو پھر ٹھیک ہے، سبین کی برتھ ڈے پارٹی کا کہہ دیتے ہیں۔” شہلا نے اپنی چھوٹی بہن کا نام لیا۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے۔” علیزہ متفق ہوگئی۔
پھر اگلے دن شہلا کالج سے اس کے ساتھ اس کے گھر آئی تھی اور اس نے نانو سے علیزہ کو اس فنکشن پر بھیجنے کیلئے اجازت مانگی تھی۔ نانو نے حسب توقع فوراً انکار کردیا مگر شہلا نے اپنی بات پر اصرار اور ان کی اتنی منت کی کہ وہ بالآخر تیار ہوگئیں۔
اور اب وہ دونوں وہاں کنسرٹ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ کنسرٹ میں دو مشہور سنگر تھے اور ان کے علاوہ باقی سارے اسٹوڈنٹ سنگرز تھے۔
”کنسرٹ ختم ہونے کے بعد سنگرز سے بھی ملیں گے۔” شہلا نے شور و غل کے درمیان اس سے کہا۔ علیزہ بے اختیار خوش ہوئی۔
”مگر کنسرٹ ختم ہوتے ہوتے تو بہت دیر ہوجائے گی پھر۔۔۔” علیزہ کو اچانک خیال آیا۔
”ایسا کریں گے جب فاروق پرفارم کرلے گا تو ہم اسٹیج کے پیچھے جا کر ان لوگوں سے مل لیں گے اور پھر چلے جائیں گے۔” شہلا کو بھی احساس ہوا کہ اس وقت تک دیر ہوجائے گی۔
پھر انہوں نے یہی کیا۔ شہلا کے بھائی نے اسٹیج پر دو گانے گائے اور اس کے دوسرے گانے کے ختم ہوتے ہی وہ دونوں اسٹیج کے پیچھے چلی آئی تھیں۔ شہلا نے جاتے ہی فاروق کومبارکباد دی اور پھر کہا۔
”میرا اور علیزہ کا تعارف کرواؤ ان لوگوں سے۔ کوئی فائدہ تو ہو تمہارے کنسرٹ کا۔” شہلا نے دور کھڑے ہوئے سنگرز کو خوش گپیوں میں مصروف دیکھ کر اس سے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے میرے ساتھ آؤ۔”
وہ انہیں لے کر ان لوگوں کی طرف بڑھ گیا تھا۔ علیزہ یک دم ایکسائیٹڈ ہوگئی۔ فاروق نے ان دونوں کا تعارف کروایا تھا۔ شہلا اب بڑی بے تکلفی سے ان لوگوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھی جبکہ علیزہ کچھ نروس سی ان لوگوں کودیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر ان لوگوں کے ساتھ گپ شپ کرنے کے بعد وہ لوگ فاروق کے ساتھ واپس جارہے تھے جب ایک لڑکے کو دیکھ کر فاروق ایک بار پھر رک گیا۔
”یہ ذوالقرنین آج اس نے بھی پرفارم کیا ہے۔ تم لوگوں نے دیکھا ہی ہوگا۔ بہت اچھا دوست ہے میرا۔” اس نے علیزہ اور شہلا سے کہا۔