Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

علیزہ نے اسٹیج پر سب سے پہلے اسی لڑکے کو پرفارم کرتے دیکھا تھا اور وہ اس کے گانے سے زیادہ اس کی اسمارٹنیس سے متاثر ہوئی تھی۔
”ویری گڈ لکنگ، یار” اس نے اس کے اسٹیج پر آتے ہی شہلا سے کہا تھا اور اب وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
”آپ لوگوں کو میرا گانا کیسا لگا؟” وہ مسکراتے ہوئے ان سے پوچھ رہا تھا۔
”خاصا اچھا گا لیتے ہیں آپ۔” شہلا نے تعریف کی۔
”اور آپ کی کیا رائے ہے؟” وہ علیزہ کی طرف متوجہ ہوا۔
اس سے پہلے کہ علیزہ کچھ کہتی، شہلا نے شوخ انداز میں کہا۔ ”علیزہ آپ کی آواز سے زیادہ آپ کی لکس سے متاثر ہوئی ہے۔”
علیزہ کا دل چاہا وہ دھواں بن کر وہاں سے غائب ہوجائے۔ بے تکلفی اور مذاق میں کہا گیا وہ تبصرہ شہلا اس طرح ذوالقرنین کو بتا دے گی، یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
ذوالقرنین اور فاروق نے بے اختیار شہلا کی بات پر قہقہہ لگایا۔ ”ہاں یہ ہمیشہ اپنی لکس کی وجہ سے فائدے میں رہتا ہے۔ سنگر گڈلکنگ ہو تو سننے والوں کی توجہ خودبخود بڑھ جاتی ہے۔ پھر بونگی آواز کو بھی وہ برداشت کرلیتے ہیں۔” اب فاروق نے تبصرہ کیا۔
”تمہارا اشارہ میری طرف ہے۔” ذوالقرنین نے فاروق کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”نہیں یار! یہ جرأت میں کیسے کرسکتا ہوں۔” فاروق نے پہلو بچایا۔
”چلیں میں تو آپ کو پسند آیا لیکن میری آواز آپ کو کیسی لگی۔ یہ آپ نے نہیں بتایا؟”
ذوالقرنین ایک بار پھر علیزہ سے مخاطب تھا۔ علیزہ میں سر اٹھانے کی بھی ہمت نہیں رہی۔ کچھ دیر پہلے کا سارا جوش و خروش غائب ہوچکا تھا۔



”بتاؤ علیزہ! ان کاگانا کیسا لگا تمہیں؟” اس بار شہلا نے جیسے اس کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے کچھ کہے بغیر غصے سے ایک نظر اس کو دیکھا۔
”اب علیزہ ناراض ہوگئی ہے۔ یار! میں مذاق کر رہی تھی۔” شہلا اس کے تیور فوراً بھانپ گئی۔
”نہیں بہرحال! میں تو اس بات کو مذاق سمجھنے پر تیار نہیں۔ میں واقعی اچھا خاصا گڈلکنگ بندہ ہوں۔” ذوالقرنین نے شہلا کی بات پر فوراً کہا۔
”مگر اتنے گڈلکنگ نہیں کہ علیزہ آپ سے متاثر ہوجائے۔” شہلا نے جیسے کچھ جتاتے ہوئے کہا۔
”کیوں علیزہ کو متاثر کرنے کیلئے کتنا گڈلکنگ ہونا ضروری ہے؟” اس بار پھر اس نے بڑی بے ساختگی سے کہا۔
”یہ تو آپ علیزہ سے پوچھیں۔” شہلا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے ان ہی سے پوچھ لیتا ہوں۔”
”شہلا! گھر چلو دیر ہو رہی ہے۔” وہ جواب دینے کے بجائے شہلا کو بازو سے کھینچنے لگی۔
”بھئی، یہ اتنا مشکل سوال تو نہیں ہے کہ آپ اس طرح یہاں سے بھاگنے کا سوچیں۔” ذوالقرنین نے ایک بار پھر قہقہہ لگا کر کہا۔ علیزہ مزید نروس ہوگئی۔
”جی نہیں، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہم بالکل یہاں سے بھاگنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہمیں واقعی دیر ہورہی ہے۔” شہلا نے بلند آواز میں کہا۔
”ٹھیک ہے، میں مان لیتا ہوں لیکن کیا آپ لوگ میرے اگلے کنسرٹ میں آئیں گے۔ خاص طور پر علیزہ؟” اس نے انہیں انوائیٹ کیا۔
”آپ کا کنسرٹ کب ہے؟” شہلا نے پوچھا۔
”اگلے مہینے۔”
”ٹھیک ہے، ہم سوچیں گے اور فاروق کو بتادیں گے۔” شہلا نے چلنا شروع کردیا۔
”میں کم از کم علیزہ سے یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ میرے کنسرٹ میں آنے کیلئے پہلے سوچیں اور پھر فیصلہ کریں انہیں آنا ہے۔”
علیزہ نے شہلا کے ساتھ تیز قدموں سے چلتے ہوئے اپنی پشت پر اس کی آواز سنی۔
فاروق اور ذوالقرنین کی نظروں سے اوجھل ہوئے ہی علیزہ شہلا پر برس پڑی۔



”تمہیں شرم آنی چاہیے اس طرح اس سے میرے بارے میں بات کرتے ہوئے… وہ کیا سوچتا ہوگا کہ میں کیسی لڑکی ہوں۔”
”اس میں بری بات کیا ہے۔ اس نے تمہارے بارے میں اچھا ہی سوچا ہوگا اسی لیے تو خاص طور پر اپنے کنسرٹ میں انوائیٹ کیا ہے اگر برا سوچتا تو ایسا نہ کرتا۔ ویسے بھی اپنی تعریف کسی کو بری نہیں لگتی۔”
”شہلا! تم بہت بدتمیز ہو، میں آئندہ تم سے کوئی بات شیئر نہیں کروں گی۔” علیزہ کا غصہ کم نہیں ہوا تھا۔
”اچھا ٹھیک ہے، میں ایکسکیوز کرتی ہوں، آئندہ ایسا نہیں کروں گی۔ اب تم یہ بتاؤ کہ اس کے کنسرٹ میں چلنا ہے؟” شہلا نے فوراً معذرت کرنی شروع کردی۔
”میں ابھی تم سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی، تم بس چپ ہوجاؤ۔” علیزہ اس کی معذرت سے متاثر نہیں ہوئی۔ شہلا خاموش ہوگئی۔ وہ علیزہ کو اچھی طرح جانتی تھی اور اسے پتا تھا کہ اب وہ اس وقت تک اس سے بات نہیں کرے گی جب تک اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوجاتا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!