Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

ذوالقرنین سے ہونے والی علیزہ کی یہ پہلی ملاقات تھی اور پہلی ملاقات آخری ثابت نہیں ہوئی، کوشش کے باوجود بھی اس رات کنسرٹ سے گھر واپس جانے کے بعد علیزہ اسے اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پائی، وہ واقعی اتنا ڈیشنگ تھا کہ کسی بھی لڑکی کیلئے اسے نظر انداز کرنا مشکل ہوتا اور علیزہ جس عمر سے گزر رہی تھی اس عمر میں صنف مخالف میں اس طرح پیدا ہوجانے والی دلچسپی بڑی طوفانی رفتار سے بڑھتی ہے۔
اگلے چند دن بعد ایک دن شہلا نے اسے ایک فون نمبر دیا تھا۔
”یہ ذوالقرنین کا فون نمبر ہے، وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے یا پھر تم اگر کہو تو وہ خود تم کو کال کرلے۔”
”کیا مطلب وہ کیوں بات کرنا چاہتا ہے۔” علیزہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔
”وہ دوستی کرنا چاہتا ہے تم سے۔”
”اس نے فاروق کا دماغ کھالیا ہے اس دن سے کہ وہ تم سے اس کا رابطہ کروائے، فاروق نے مجھ سے کہا اب میں تمہیں اس کا فون نمبردے رہی ہوں۔”
”کہیں تم نے اس کو میرا فون نمبر تو نہیں دیا؟” علیزہ یک دم خائف ہوگئی۔
”میں نے تو نہیں مگر فاروق نے دے دیا ہے، اب اگر تم اسے فون نہیں کرتیں تو پھر یقیناً وہ تمہیں فون کرے گا۔” علیزہ کا جیسے سانس رک گیا۔” اوہ گاڈ! اگر فون نانو نے ریسیو کرلیا تو… شہلا! تم اسے منع کردو کہ مجھے کبھی فون مت کرے۔”
”تو پھر بہتر ہے تم خود اس سے بات کرلو… اسے فون کرلو۔۔۔”
شہلا نے اس کے سامنے جیسے ایک تجویز رکھی تھی۔



”مگر میں اس سے فون پر کیا کہوں… نہیں میں اسے کال نہیں کروں گی۔” اس نے فوراً انکار کردیا۔
اس کا انکار بہت دیر تک نہیں چلا۔ دوسرے دن لاشعوری طور پر اسے فون کر بیٹھی تھی۔ اور فون کالز کا یہ سلسلہ پھر بڑھتا گیا تھا۔ ذوالقرنین میڈیکل کالج میں فاروق کا کلاس فیلو تھا وہ دونوں تھرڈ ایئر میں تھے اور نہ صرف فاروق بلکہ شہلا کی بھی ذوالقرنین کے بارے میں اچھی رائے تھی۔
عمر ان دنوں اسلام آباد میں تھا اور اس کے اور علیزہ کے درمیان ہمدردی اور انسیت کا جو ایک تعلق شروع ہوا تھا وہ یک دم جیسے غائب ہوگیا تھا، عمر خود اسے کبھی کال نہیں کرتا تھا، نانو یا نانا ہی اسے کال کیا کرتے تھے اور علیزہ کو کبھی اس سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا نہ ہی عمر نے کبھی علیزہ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔



دوسری طرف علیزہ کیلئے ان دنوں ذوالقرنین سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں رہی تھی۔ وہ شہلا کو کال کرنے کے بہانے ذوالقرنین کو کال کرتی اور بہت دیر تک اس سے باتیں کرتی رہتی۔ اس کے اندر یک دم بہت سی تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ وہ پہلے سے زیادہ خوش رہنے لگی تھی۔ خود پر بہت زیادہ توجہ دینے لگی تھی۔ کرسٹی کے ساتھ بھی پہلے سے کم وقت گزارنے لگی تھی۔ نانو اس میں ہونے والی ان تبدیلیوں کی وجہ نہیں جانتی تھی مگر وہ خوش تھیں کہ وہ آہستہ آہستہ ڈپریشن کے اس فیز سے باہر آرہی ہے جس میں وہ پچھلے کچھ عرصہ سے تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اب وہ اپنی اسٹڈیز پر بھی پہلے کی طرح توجہ دینے لگے گی۔
ذوالقرنین میں علیزہ کو کیا چیز اچھی لگی تھی۔ علیزہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔ وہ اس کے لکس سے زیادہ متاثر ہوئی تھی یا اس کے سنگر ہونے سے یا پھر علیزہ میں لی جانے والی دلچسپی سے… اسے کچھ بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا مگر وہ صرف اس بات سے خوش تھی کہ وہ یک دم کسی کیلئے اتنی اہم ہوگئی ہے۔ ذوالقرنین اس کی تعریفیں کرتا تھا اور علیزہ کیلئے ان دنوں عمر کی عدم موجودگی میں شاید اسی چیز کی ضرورت تھی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!