Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

وہ لئیق انکل کے ساتھ شام کو جاگنگ کیلئے پارک میں آیا تھا جاگنگ ٹریک پر دوڑتے ہوئے ہر دوسرے قدم میں ان کے ساتھ کام کرنے والا کوئی نہ کوئی کولیگ یا شناسا انہیں مل رہا تھا۔ وہ جاگنگ کرتے ہوئے سلام دعا کا تبادلہ کرتے اور رکے بغیر آگے بڑھ جاتے۔
”میں نے جہانگیر سے کہا تھا، تمہیں فارن سروس کے بجائے پولیس سروس میں آنے دے مگر وہ میری بات ماننے پر تیار نہیں ہوا۔” جاگنگ ٹریک پر اس کے ساتھ بھاگتے بھاگتے وہ باتیں کرتے جارہے تھے۔
”تمہارا اپنا انٹرسٹ کس چیز میں ہے؟”
”کسی میں بھی نہیں۔” اس کا دل چاہے وہ کہہ دے۔
”فارن سروس ہی ٹھیک ہے۔” اس نے ساتھ بھاگتے ہوئے کہا۔
”فارن سروس ٹھیک نہیں ہے۔ اسکوپ نہیں ہے اب اس کا کوئی… ہر پولیٹیکل گورنمنٹ آتے ہی سیاسی بنیادوں پر اپائنٹمینٹ کردیتی ہے۔ چار چھ جو اچھے ملک ہیں وہاں فارن سروس کے کسی بندے کو وہ لگاتے ہی نہیں جو سیاست دان الیکشن ہار جاتے ہیں، مگر پارٹی کو اچھا خاصا روپیہ دیتے رہتے ہیں وہ انہیں کو اٹھا کر ان ملکوں میں بھیج دیتی ہے۔ باقی جو ملک رہ جاتے ہیں وہاں صرف کام ہی کیا جاسکتا ہے۔ عیش کرنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا اور کام اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ مشن کے پاس فنڈز ہی نہیں ہوتے جو روپیہ گورنمنٹ دیتی ہے اس سے بمشکل مشن اپنے اخراجات ہی پورے کرسکتا ہے ایسے حالات میں فارن سروس میں آنے کا فائدہ کیا ہے۔” وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ کہتے جارہے تھے۔
”پوسٹنگ میرا کنسرن نہیں ہے، پاپا کروالیں گے۔”



”جہانگیر کروا تو لے گا مگر بات صرف ایک پوسٹنگ کی تو نہیں ہوتی۔ مسلسل اچھی پوسٹنگ ملتی رہے تب جاکر کچھ فائدہ ہوتا ہے اور جہانگیر کو تو خود اس بار بہت پرابلم ہوا ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی پوسٹ بچائی ہے۔ فارن منسٹر اپنے بھائی کو اس کی جگہ لانے کی کوشش کر رہے تھے بلکہ لانے میں کامیاب ہوگئے تھے وہ تو بس جبار کام آگیا۔ اس کے فادران لا نے منسٹر کے بھائی کی پوسٹنگ نہیں ہونے دی۔”
انہوں نے عمر کو جہانگیر کے ایک اور دوست کے بارے میں بتایا عمر نے اس بار کوئی جواب نہیں دیا۔
”پھر جہانگیر کی اس اچانک شادی کی وجہ سے بھی مسئلہ ہوا۔ ایمبیسی میں موجود کسی ایجنسی کے آدمی نے جہانگیر کی شادی سے پہلے رشنا کے حوالے سے کوئی خفیہ رپورٹ بھیج دی۔ فارن منسٹر تو پہلے ہی تاک میں بیٹھے تھے، انہوں نے فوراً شور شرابا کردیا۔ پریس تک یہ خبر لانے والے بھی وہی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ معاملہ پریس تک آئے گا تو خوب اچھلے گا اور پھر وزیراعظم اسے ہٹانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مگر جبار بہت کام آیا۔ اس نے منسٹر کی ایک نہیں چلنے دی… لیکن آخر کب تک… اب منسٹر مسلسل تاک میں ہے۔ چوٹ کھایا ہوا سانپ بنا بیٹھا ہے۔”
”فارن سروس میں اس طرح کی سچویشن ہے تو پولیس سروس میں تو اور بھی زیادہ پرابلمز ہوں گے، کیونکہ وہاں سیاسی مداخلت اور بھی زیادہ ہے۔” لئیق انکل کے ساتھ بھاگتے ہوئے اس نے تبصرہ کیا۔
”اچھی پوسٹنگ تو وہاں بھی مشکل سے ہی ملے گی۔”
”ہاں یہ پرابلمز تو وہاں بھی ہیں، مگر وہاں بندہ جس بھی شہر میں پوسٹڈ ہو، وہاں کی انڈسٹریلسٹ کلاس سے کانٹیکٹس بنا سکتا ہے۔ اچھا خاصا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بندے کے پاس پاور اور اتھارٹی ہو تو سمجھو، ساری دنیا اپنی ہے۔” وہ اسے گر سکھا رہے تھے۔
”تم نے انتخاب میں دوسرے نمبر پر کون سا ڈیپارٹمنٹ دیا ہے؟”
”ڈی ایم جی۔”
”اور پولیس سروس کو کس نمبر پر لیا ہے؟”
”تیسرے پر۔”
”بہتر ہوتا تم اسے ہی پہلے نمبر پر رکھتے بہر حال ابھی بھی وقت ہے، تم سوچ لو، میں جہانگیر سے دوبارہ بات کروں گا۔ سب کچھ بدلا جاسکتا ہے۔” انہوں نے اس کے سامنے جیسے نیا راستہ کھولا تھا۔
”نہیں انکل! میں فارن سروس ہی جوائن کرنا چاہتا ہوں… مجھے کسی دوسرے گروپ میں دلچسپی نہیں ہے۔” عمر نے انکار کردیا۔
”پھر بھی ایک بار دوبارہ سوچ لو۔”
”نہیں، جو بھی پاپا نے طے کیا ہے۔ وہ ٹھیک ہے۔” لئیق انکل جاگنگ کرتے ہوئے خاموش ہوگئے۔



لئیق انکل جہانگیر معاذ سے اپنی دوستی پر بڑا فخر کرتے تھے اور وہ اس بات پر بھی خاصے نازاں تھے کہ جہانگیر معاذ ان پر مکمل طور پر اعتماد کرتا تھا۔
عمر سے ملاقات کے دوران بھی انہوں نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا تھا اور وہ صرف مسکرا کر رہ گیا تھا وہ ان کی خوش فہمی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ ورنہ وہ جانتا تھا کہ جہانگیر معاذ جیسا شخص جو اپنے سائے پر بھی اعتماد نہیں کرتا۔ وہ ایک کزن پر کیسے اعتماد کرسکتا ہے، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح لئیق انکل بھی ان کے ہاتھ ایک کٹھ پتلی کی طرح تھے جنہیں وہ بڑی ہوشیاری سے استعمال کر رہے تھے۔ عمر صرف اس بات کا اندازہ نہیں کر پارہا تھا کہ لئیق انکل اس بات کو جانتے تھے یا نہیں۔ عمر نے لئیق انکل کے بارے میں اپنے باپ کے منہ سے بہت بار تمسخرانہ جملے سنے تھے اور لئیق انکل واحد نہیں تھے۔ وہ اپنے ہر دوست اور ملنے والے کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتے رہتے تھے۔ عمر کو حیرانی ہوتی کہ اس کے باوجود ان کے دوستوں کی لمبی چوڑی تعداد میں کوئی کمی آئی نہ ہی انہیں کبھی اپنے دوست سے نقصان پہنچا تھا۔
اس نے جہانگیر معاذ کو صرف اپنے فرینڈ اور کزنز کا ہی نہیں بلکہ اپنے بھائیوں کے نام اور پوزیشن کا بھی بری طرح استعمال کرتے دیکھا تھا، اور اب جب وہ اپنے باپ کے کسی بھی دوست سے ملتا تو اسے ہمیشہ ان پر ترس آتا… لئیق انکل بھی ان ہی میں سے ایک تھے۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!