Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”وہ عمر! ثمرین آنٹی نے دوبارہ کال کی ہے۔ میں نے انہیں بتا دیا کہ تم گھر پر نہیں ہو۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ جب تم واپس آؤ تو میں تم سے کہوں کہ تم انہیں کال کرو۔”
وہ اس وقت کلب سے واپس آیا تھا جب لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اسے دیکھ کر شانزہ نے اطلاع دی۔ عمر یک دم سنجیدہ ہوگیا۔
”انہوں نے بس یہی پیغام چھوڑا ہے؟”
”ہاں بس یہی کہا تھا انہوں نے تمہارے موبائل پر بھی کال کی تھی مگر تم نے اپنا موبائل آف کیا ہوا تھا۔”
شانزہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ عمر مزید کچھ پوچھنے کے بجائے سیدھا اپنے کمرے میں آگیا۔
موبائل آن کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ نہانے کیلئے باتھ روم میں چلا گیا۔ آدھ گھنٹہ کے بعد جب وہ نہانے کے بعد باہر نکلا تھا تو اس کے موبائل کی بیپ سنائی دے رہی تھی۔ اس نے کچھ ٹھٹک کر تذبذب کے عالم میں موبائل اٹھایا تھا کال کرنے والے کا نمبر دیکھ کر اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ایک گہرا سانس لے کر اس نے کال ریسیو کیا۔



”ہیلو عمر! میں ثمرین بات کر رہی ہوں۔” دوسری طرف سے اسے اپنے باپ کی دوسری بیوی کی آواز سنائی دی۔
”ہاں، میں بول رہا ہوں… کیسی ہیں آپ؟”
”میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو؟”
”فائن۔”
”میں آج سارا دن بار بار تم سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر تمہارا موبائل آف تھا۔”
”ہاں، میں کچھ مصروف تھا، آپ کو کوئی ضروری کام تھا؟” دوسری طرف چند لمحے خاموشی رہی پھر ثمرین کی آواز سنائی دی۔
”تمہیں جہانگیر کی شادی کا تو پتا چل ہی گیا ہوگا؟”
”ہاں میں جانتا ہوں۔” اس نے مختصراً کہا۔
”تم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہو گے کہ وہ لڑکی جہانگیر کی آدھی عمر سے بھی کم عمر ہے۔ پھر جس طرح کی شہرت وہ رکھتی ہے میں نہیں جانتی، جہانگیر کو کیا ہوگیا ہے وہ کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہا ہے۔” ثمرین کے لہجے سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
عمر خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا۔” میں اور بچے جہانگیر کی اس حرکت سے کتنے ڈسٹرب ہیں اس کا تم اندازہ نہیں کرسکتے۔”
”لیکن میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں؟” اس نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”تم جہانگیر سے بات کرو” ثمرین کا لہجہ اس بار کچھ دھیما تھا۔
”کیا بات کروں؟” دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔
”کہ وہ اس لڑکی کو ڈائی وورس دے دے۔”



”آپ کا کیا خیال ہے، میرے کہنے پر پاپا اسے ڈائی وورس دے دیں گے؟” اس نے جواباً ان سے پوچھا۔
”تم اس کے سب سے بڑے بیٹے ہو، تمہاری بات بہت اہمیت رکھتی ہے۔”
”آپ اگر ایسا سوچ رہی ہیں تو غلط سوچ رہی ہیں۔ خوش قسمتی سے میں ان کا سب سے بڑا بیٹا تو ہوں لیکن میری بات ان کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔”
”عمر! تم اسے مجبور کرسکتے ہو۔”
”نہیں۔ میں انہیں مجبور کرسکتا ہوں نہ ہی کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”عمر! میں تم سے ریکویسٹ کررہی ہوں۔” اس بار ثمرین کا لہجہ منت بھرا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!