Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میں ان پر جتنا دباؤ ڈال سکتا تھا، ڈال چکا ہوں، ان سے اس موضوع پر میری بات ہوچکی ہے اور یہ گفتگو کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہی، اس لیے میں اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتا۔”
”جہانگیر ہمیں اسلام آباد والے گھر میں شفٹ کرنا چاہتا ہے۔”
”میں جانتا ہوں۔”
”مگر میں اور بچے ایسا نہیں چاہتے۔ جہانگیر اپنی اس نئی بیوی کو کیوں نہیں یہاں شفٹ کرتا… میں اور بچے اس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح ہمیں اٹھا کر کیسے پھینک سکتا ہے۔ تم کم از کم اس سے یہ تو کہہ ہی سکتے ہو کہ وہ ہمیں امریکہ میں اپنے پاس ہی رہنے دے۔”



”میرے کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ پاپا میری بات سنیں گے نہ مانیں گے، ویسے بھی یہ آپ دونوں کا ذاتی معاملہ ہے بہتر ہے آپ اسے خود حل کریں۔ مجھے درمیان میں مت لائیں۔”
اس نے بڑے پرسکون انداز میں کہا۔
”جہانگیر کی شادی صرف میرا یا میرے بچوں کا ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ کیا تم اس سے متاثر نہیں ہوئے، کیا تمہیں شرمندگی نہیں ہوئی کہ اس عمر میں جہانگیر نے اس طرح کی حرکت کی ہے۔”
”میں اس تکلیف سے بہت پہلے گزر چکا ہوں۔ باپ کی صرف دوسری شادی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی سے کچھ نہیں ہوتا۔ وہ سب کچھ پھر روٹین لگتی ہے۔” اس کے لہجے کی کاٹ نے ثمرین کو چند لمحوں کیلئے خاموش کردیا۔
”میں نے جہانگیر سے شادی تمہاری ماں کی ڈائی وورس کے بہت بعد کی تھی۔”
”مگر اس ڈائی وورس کا سبب آپ ہی تھیں۔”
”نہیں ایسا نہیں ہے۔ عمر جہانگیر اور زارا کے درمیان انڈر سٹینڈنگ نہیں تھی پھر تمہاری ماں نے اپنی مرضی سے۔۔۔”
عمر نے ناگواری سے ان کی وضاحت کو کاٹ دیا۔
”میں ماضی میں نہیں جانا چاہتا کہ کس نے کیا کس کی وجہ سے اور کیوں… کم از کم اب مجھے اس بحث سے کوئی دلچسپی نہیں ہے میں آپ کو بس یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اپنے ہاتھ کا ہتھیار بنا کر استعمال کرنے کی کوشش نہ کریں۔”
”عمر! تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو۔”
”ہوسکتا ہے، بہرحال یہ آپ دونوں کا ذاتی معاملہ ہے اور بہتر ہے، آپ اسے خود ہی حل کریں۔ جو کچھ آپ میرے ذریعے پاپا سے کہلوانا چاہتی ہیں۔ وہ خود کہہ دیں یا پھر ولید سے کہیں کہ وہ پاپا سے بات کرے ہوسکتا ہے، میرے بجائے وہ زیادہ بہتر طریقے سے یہ سب کچھ پاپا تک پہنچا دے۔”
دوسری طرف سے فون یکدم بند کردیا گیا تھا۔



ثمرین کے ساتھ اس کے تعلقات میں ہمیشہ ایک تکلف رہا تھا۔ ثمرین نے یہ اجنبیت دور کرنے کیلئے پہل کی تھی نہ ہی عمر نے اس کی کوشش کی تھی۔ عمر اور ان کے درمیان بڑی سرسری اور رسمی سی گفتگو ہوتی تھی۔ عمر کو حیرانی ہوئی تھی کہ ثمرین نے اس طرح اس سے مدد لینے کی کوشش کیوں کی تھی۔
اس کے دل میں ثمرین کے خلاف کسی قسم کا کوئی بغض نہیں تھا نہ ہی اس نے کبھی ثمرین کو اپنی ماں اور باپ کے درمیان ہونے والی علیحدگی کا ذمہ دار سمجھا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس نے ثمرین کیلئے کبھی بہت اچھے احساسات بھی نہیں رکھے تھے اور اس میں بڑا ہاتھ خود ثمرین کا ہی تھا۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!