Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

راکنگ چیئر پر جھولتے ہوئے وہ برستی بارش کو دیکھ رہا تھا۔ باہر لان میں اب لائٹس آن کردی گئی تھیں اور ہوا سے ہلتے بارش میں بھیگتے پودے اور بیلیں بہت عجیب لگ رہی تھیں۔
کمرے کے دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے چونکا دیا۔
”بس کم ان۔” اس نے بلند آواز میں کہتے ہوئے راکنگ چیئر کو جھلانا بند کردیا۔ دروازہ آہستہ آہستہ کھلا تھا اور پھر عمر نے علیزہ کو کمرے کے اندر آتے دیکھا، وہ اپنے ہاتھوں میں کرسٹی کو اٹھائے ہوئی تھی۔
”اوہ علیزہ!” عمر کچھ حیران ہوا تھا۔
”میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟” وہ کچھ نروس تھی۔
”ناٹ ایٹ آل میں فارغ بیٹھا ہوا تھا… تمہیں کوئی کام ہے؟” اس نے مسکراتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔
”میں تھوڑی دیر کیلئے آپ کے پاس بیٹھ جاؤں؟”
”وائے ناٹ۔” عمر نے کچھ حیرانی آمیز مسکراہٹ سے کہا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بیڈ کی پائنتی کی طرف بیٹھ گئی۔ عمر اب راکنگ چیئر کو جھلانا بند کرچکا تھا۔
”آپ کو بارش بہت اچھی لگتی ہے؟” علیزہ نے کھڑکی کے پردے ہٹے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں۔”
”کیوں؟”
”مجھے بارش سے خوف آتا ہے۔”
”بارش سے خوف؟… کیا مطلب؟” وہ حیران ہوئی۔
”چھوڑو یار… مذاق کر رہا ہوں۔ تمہیں اچھی لگتی ہے بارش؟”
”نہیں۔”
”کیوں؟”
”پتا نہیں بس مجھے بارش سے الجھن ہوتی ہے۔” عمر کچھ کہے بغیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھاگئی۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ اب کیا بات کرے۔ کچھ دیر وہ سوچتی رہی پھر اس نے ایک کاغذ عمر کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ کیا ہے؟” عمر نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔



”آپ دیکھ لیں۔” عمر نے کچھ تجسس کے عالم میں کاغذ کھولا تھا۔ پھر اس کے چہرے پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ علیزہ کی آنکھوں میں یک دم چمک لہرائی۔
”اٹس جسٹ ونڈر فل۔” عمر نے کاغذ پر بنے ہوئے اس اسکیچ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”تھینک یو۔” علیزہ کا چہرہ کچھ سرخ ہوا۔
”مگر میں حیران ہوں کہ میرا چہرہ اس قابل کیسے ہوگیا کہ تم میری اسکیچنگ کرو۔”
”وہ… وہ تب آپ میرے دوست نہیں تھے اس لیے۔” اسے یاد آگیا تھا جب عمر نے ایک بار اس کی اسکیچ بک دیکھ کر اس کی تعریف کرنے کے بعد اسکیچ بنانے کی فرمائش کی تھی اور اس نے بڑی بے رخی سے اس کی یہ فرمائش رد کردی تھی۔
”اوہ… یعنی اب ہم دوست ہیں؟” عمر نے دلچسپی سے پوچھا۔ علیزہ نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔
”So nice of you۔” وہ ایک بار پھر اسکیچ دیکھنے لگا۔
”کیا میں واقعی اتنا گڈلکنگ ہوں، جتنا اس اسکیچ میں لگ رہا ہوں یا پھر یہ صرف تمہارے ہاتھ کا کمال ہے؟”
وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔ علیزہ کا چہرہ ایک بار پھر سرخ ہوگیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس کے سوال کا کیا جواب دے۔
عمر نے علیزہ کو جھینپتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ”تم اسکیچنگ کے بجائے پینٹنگز بنایا کرو، میں تمہاری ایگزیبیشن کرواؤں گا۔”
وہ اس کی بات پر حیران ہوئی۔ ”ایگزیبیشن کیلئے تو بہت ساری پینٹنگز چاہئیں۔ اس میں تو بہت وقت لگے گا۔”
”کتنا وقت لگے گا؟ ایک سال دو سال، دس سال میں کون سا مرنے والا ہوں یہیں ہوں۔ بس تم اب پیٹنگز بنایا کرو۔”
”لیکن میں ایگزیبیشن کروا کے کیا کروں گی… مجھے کوئی آرٹسٹ تو نہیں بننا۔” وہ ہچکچائی۔



”یہ کوئی لاجک نہیں ہے۔ بہت سے لوگ آرٹسٹ نہیں ہوتے مگر پینٹنگز بھی بناتے ہیں اور ایگزیبیشن بھی کرواتے ہیں۔ بس اسے پروفیشن نہیں بناتے۔ تم بھی یہی کرنا۔” وہ بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
علیزہ مطمئن تھی۔ وہ اس کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
اب عمر یقیناًاپنی ممی کے بارے میں سوچ رہا ہوگا۔ میں اس سے باتیں کروں گی تو یہ آہستہ آہستہ ریلیکس ہو جائے گا۔ وہ سوچ رہی تھی۔
”نہیں… ہر بندہ آرٹسٹ نہیں ہوتا۔”
”آپ نے کبھی کوشش نہیں کی؟”
”جو چیز مجھے پسند نہیں، وہ میں کبھی کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔” اس کا لہجہ دو ٹوک تھا۔
علیزہ یک دم ساکت ہوگئی۔ ”ابھی چند لمحے پہلے یہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں… اور اب کیا کہہ رہا ہے کہ اسے پینٹنگ پسند نہیں ہے۔” وہ الجھنے لگی۔
”پھر آپ مجھے پینٹنگز بنانے کیلئے کیوں کہہ رہے ہیں جبکہ آپ کو خود یہ کام پسند نہیں ہے؟” وہ برا مانتے ہوئے بولی۔
”میری پسند یا ناپسند کوئی اہمیت نہیں رکھتی ،میرے لیے تمہاری پسند یا نا پسند اہمیت رکھتی ہے۔” وہ اس کی بات سمجھ نہیں پائی صرف اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
مزید کچھ کہنے کے بجائے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کرسٹی کو عمر کی طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا۔
”آپ چاہیں تو اسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں… اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔”
عمر نے کچھ حیرانی سے اس کے ہاتھ سے کرسٹی کو لے لیا۔
”تم برا نہیں مانو گی؟”
”نہیں۔” وہ کچھ اور حیران ہوا۔
”آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟” وہ جاتے جاتے مڑی۔
”نہیں۔” وہ کمرے سے نکل گئی۔
عمر اسے کمرے سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا، علیزہ کا بدلا ہوا رویہ اس کیلئے حیرانی کا باعث تھا۔
”اتنی مہربانی کس لیے؟” وہ سوچنے لگا اور پھر اس کے ذہن میں جیسے جھماکا ہوا۔ وہ جان گیا تھا۔ وہ کیا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ بہت دیر تک وہ کرسٹی کو ہاتھوں میں لیے بے حس و حرکت اپنی کرسی پر بیٹھا رہا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!