Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”تم کچھ دنوں کیلئے اسلام آباد چلے جاؤ۔” تین چار دن کے بعد عمر کو جہانگیر نے کال کیا تھا حال احوال دریافت کرنے کے فوراً بعد انہوں نے اس سے کہا تھا۔
”کس لیے؟”
”لئیق علی کے پاس جانا ہے تمہیں۔” انہوں نے اپنے ایک کزن کا نام لیا۔
”لیکن کس لیے؟”
”ایک تو وہ تمہیں پبلک سروس کمیشن کے ان دونوں سائیکالوجسٹس سے ملوائیں گے، جو رزلٹ آنے پر تمہارا سائیکلوجیکل ٹیسٹ لیں گے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ تمہاری گروپ ڈسکشن بھی وہی کنڈکٹ کروائیں۔”
”مگر پاپا! اتنی جلدی کیا ہے، ابھی توچند ہفتے ہوئے ہیں تحریری امتحان کو، پہلے رزلٹ تو آنے دیں۔ اس کے بعد۔”
جہانگیر نے اس کی بات کاٹ دی ”تمہارے پیپرز چیک ہوتے ہی رزلٹ مجھے پتا چل جائے گا اور اس میں صرف ایک ڈیڑھ ماہ اور لگے گا۔”
”نہیں پاپا! چار پانچ ماہ لگیں گے رزلٹ ڈکلیئر ہونے میں۔” اس نے تصحیح کی۔
”میں رزلٹ ڈکلیئر ہونے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ وہ جب چاہے ہوتا رہے… لیکن تمہارے پیپرز چیک ہوتے ہی مجھ تک تمہارا رزلٹ پہنچ جائے گا اور میں تمہیں انفارم کردوں گا۔”
وہ خاموشی سے فون پر ان کی بات سنتا رہا۔
”ان لوگوں سے مل کر میں کیا کروں گا؟”
”کیا مطلب ہے کیا کروں گا؟ وہ تمہیں گائیڈ کریں گے۔ سائیکلوجیکل ٹیسٹ کے بارے میں۔”



”مگر پاپا کافی بے اصولی کی بات ہے یہ، وہی لوگ بعد میں ٹیسٹ کنڈکٹ کروائیں گے اور وہی لوگ پہلے ہی مجھے۔” اس نے کچھ کہنا چاہا تھا۔
”Everything is fair as long as it goes to you” اس لیے دوبارہ مجھ سے اصولی یا بے اصولی کی بات مت کرنا تم بیوروکریسی کو کوئی نیا ٹرینڈ دینے نہیں جارہے ہو۔” جہانگیر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے بہت سرد آواز میں کہا۔
”میں نے یہ کب کہا پاپا کہ میں… میں تو بس چاہ رہا تھا کہ مجھے اپنی potential کا پتہ چلے۔”
”اپنی potential کا جائزہ تم بعد میں لیتے رہنا فی الحال لئیق علی کے پاس چلے جاؤ… میں نے اسے تمہاری آمد کے بارے میں انفارم کردیا ہے۔ پھر بھی جانے سے پہلے تم اسے کال کرلینا۔”
”ٹھیک ہے مگر مجھے کتنے دن وہاں رہنا ہے؟”
”یہ میں تمہیں بعد میں بتا دوں گا… کال کرتا رہوں گا وہاں بھی۔”
”پھر بھی پاپا! مجھے اندازہ تو ہونا چاہیے کہ مجھے وہاں کتنے دن رہنا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا سامان پیک کروں۔”
”شاید ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ۔”
”واٹ؟ اتنا لمبا قیام کیوں؟” وہ حیران رہ گیا۔
”بس میں چاہتا ہوں کہ تمہاری اچھی طرح سے تیاری ہوجائے۔”
”نہیں تیاری کیلئے اتنے لمبے قیام کی ضرورت نہیں ہے۔ دو تین دن کافی ہیں۔”
”جب تک میں تمہیں وہاں سے واپس آنے کو نہ کہوں، وہاں سے واپس مت آنا۔” جہانگیر کی آواز ایک بار پھر خشک ہوگئی۔
”پاپا… میں کچھ دنوں کیلئے امریکہ آنا چاہتا ہوں۔” اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔
”کس لیے؟” جہانگیر کی آواز پہلے کی طرح سرد تھی۔
وہ کچھ دیر خاموش رہا ”ویسے ہی۔”
”ویسے ہی سے کیا مطلب ہے تمہارا؟” جہانگیر کی آواز پہلے سے زیادہ تیکھی تھی۔
”میں کچھ ریلیکس کرنا چاہ رہا تھا۔”
”تم سوات گئے تو تھے۔ کیا وہاں ریلیکس نہیں کیا؟”



”پاپا! مجھے کچھ چیزوں کی ضرورت ہے۔”
”تم نام بتا دو، میں خرید کر بھجوا دیتا ہوں۔” عمر نے ان کے جواب پر ہونٹ بھینچ لیے۔
”مجھے اپنے کچھ پیپرز اور دوسری چیزیں چاہئیں جو میں خود ہی آکر لے سکتا ہوں۔”
”تمہارا سارا سامان یہیں گھر میں ہے تم پیپرز اور دوسری چیزوں کے بارے میں بتا دو میں آج ہی پیک کروا کر تمہیں بھجوا دیتا ہوں۔ دو تین دن تک تمہیں مل جائیں گی۔”
”آخر آپ مجھے امریکہ آنے کیوں نہیں دینا چاہتے۔” وہ بالآخر تلخ ہوگیا۔
”کیونکہ میں جانتا ہوں، تم امریکہ کس لیے آنا چاہتے ہو؟”
وہ چپ سا ہوگیا۔
”مجھے ایسے لوگوں سے نفرت ہے جو مجھ سے جھوٹ بولیں یا غلط بیانی کریں۔” اس نے اپنے باپ کو کہتے سنا۔ وہ ہونٹ کاٹنے لگا۔ اس کا دل چاہا، وہ ان سے کہے آپ کو ایسے لوگوں سے نہیں صرف مجھ سے نفرت ہے۔
”تمہارے ا کاؤنٹ میں، میں نے کچھ اور روپے ٹرانسفر کروائے ہیں۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو۔” وہ کچھ دیر اس کے بولنے کے منتظر رہے۔
”نہیں، کچھ نہیں چاہیے۔” اس نے کچھ دیر بعد کہا۔
”ٹھیک ہے۔ دو دن کے بعد میں تمہیں دوبارہ فون کروں گا… تب تمہیں لئیق کے پاس ہونا چاہیے۔” فون بند کردیا گیا تھا۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!