Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

وہ غصے میں بھرا ہوا اپنے کمرے میں گیا تھا۔ موبائل نکال کر اس نے جہانگیر کو کال کرنا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد جہانگیر لائن پر آگئے تھے۔
”اوہ عمر… تم نے کیسے فون کیا؟ کیا لئیق کے پاس پہنچ گئے ہو؟”
”نہیں، میں ان کے پاس نہیں گیا اور نہ ہی جاؤں گا۔”
”کیوں؟ کیا ہوا؟” جہانگیر جیسے کچھ محتاط ہوگئے۔
”میں امریکہ آنا چاہتا ہوں۔” اس نے اسی اکھڑ انداز میں کہا۔
”تم سے میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ میں نہیں چاہتا ابھی تم یہاں آؤ۔”
”کیوں نہیں چاہتے آپ؟”
”مجھے کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔” ان کا لہجہ یک دم خشک ہوگیا۔
”’ہاں، آپ کو کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں۔ آپ مجھے امریکہ آنے سے کیوں روک رہے ہیں۔” اس کے لہجے کی تلخی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
”کیوں روک رہا ہوں؟”
”اپنی نئی بیوی کی وجہ سے۔”
دوسری طرف یک دم خاموشی چھاگئی تھی۔ عمر جہانگیر کے کسی جملے کا منتظر رہا مگر وہ خاموش ہی رہے تھے۔ ایک لمبے وقفے کے بعد انہوں نے بالآخر ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
”تمہیں کس نے بتایا ہے؟”
”ساری دنیا میری طرح اندھی نہیں ہوتی۔”



”مجھ سے بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے صرف یہ بتاؤ کہ تمہیں اس شادی کے بارے میں کس نے بتایا؟”
عمر کے ڈپریشن میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ جہانگیر شرمندہ لگ رہے تھے نہ انہوں نے اس شادی سے انکار کیا تھا۔
”نیوز پیپرز میں پڑھا ہے میں نے۔”
”کس نیوز پیپر میں؟”
”آپ نیوز پیپر کا نام جان کر کیا کریں گے؟ نیوز پیپر بند کروا دیں گے سچ چھاپنے کے جرم میں؟”
”تم مجھ سے کیا جاننا چاہتے ہو؟” اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے انہوں نے کہا تھا۔
”میں کیا جاننا چاہتا ہوں میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ شادی کیوں کی ہے؟”
”تمہیں مجھ سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت کیسے ہوئی؟”
وہ فون پر چلا اٹھے تھے۔ چند لمحوں کیلئے وہ چپ سا رہ گیا۔
”آپ کو پتا ہے، وہ لڑکی عمر میں آپ سے کتنی چھوٹی ہے۔ مجھ سے بھی چھ سال چھوٹی ہے وہ۔”
”تمہیں مشورہ دینے کو کس نے کہا ہے؟”
‘میں آپ کو کوئی مشورہ نہیں دے رہا ہوں، میں آپ کو صرف یہ بتا رہا ہوں کہ آپ۔۔۔”
جہانگیر نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ”مجھے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں، میں نے کیا کیا ہے اور کیوں کیا ہے؟”
”آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کی اس حرکت سے آپ کے بچوں پر کیا اثر ہوگا؟”
”تم صرف اپنی بات کر رہے ہو۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟”
”Am I right” انہوں نے بڑے جتانے والے انداز میں کہا۔
”میں صرف اپنی بات نہیں کر رہا ہوں میں آپ کے سب بچوں کی بات کر رہا ہوں۔”
”تمہیں دوسروں کی بات کرنے کا کوئی حق ہے نہ ضرورت تم صرف اپنی بات کرو۔”
”آپ نے کسی کے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا۔”
”مجھ سے مزید بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔ میری شادی میرا پرسنل افیئر ہے۔ میں جب جس سے چاہوں شادی کرسکتا ہوں۔ میرے معاملات میں ٹانگ مت اڑاؤ۔ کیا اتنی بکواس کافی ہے یا کچھ اور بھی بکنا ہے تمہیں؟”
”آپ جانتے ہیں پریس آپ کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔ آپ کے بارے میں کیا کمنٹس دیئے جارہے ہیں۔” وہ بمشکل اپنی آواز پر قابو پارہا تھا۔
”مجھے پروا نہیں ہے” اس نے باپ کی سرد آواز سنی۔ اس کا خون کھول کر رہ گیا۔



”But I do care. میرے لیے لوگوں سے ملنا بہت مشکل کردیا ہے آپ نے ۔آپ کی اس تیسری اور اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی سے شادی کی کیا لاجک پیش کروں میں لوگوں کے سامنے؟”
”تم اپنے کام سے کام رکھو اورمیرے معاملات کے بارے میں فکر مندی کے ڈرامے مت کرو، کل تک لئیق کے پاس چلے جاؤ۔ میں کل اس سے فون پر کانٹیکٹ کروں گا۔”
”میں ان کے پاس نہیں جا رہا ہوں۔”
”کیا مطلب؟”
”میں آج سیٹ بک کرواؤں گا اور اگلی فلائٹ سے امریکہ آرہا ہوں۔”
”بکواس مت کرو۔”
”میں بکواس نہیں کر رہا ہوں جو کرنے والا ہوں وہی بتا رہا ہوں۔”
”اور امریکہ آکر کیا کروگے تم؟”
”یہ وہاں آکر ہی دیکھوں گا۔” اس نے موبائل بند کردیا۔ چند لمحے بعد موبائل پر دوبارہ کال آنے لگی۔ وہ جانتا تھا، جہانگیر اسے کال کر رہے ہوں گے۔ اس نے موبائل آف کر کے رکھ دیا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!