Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”مجھے ان سے بات نہیں کرناہے۔” جہانگیر نے اس کا موبائل آف ہونے کے بعد فون پر معاذ حیدر سے اس سے بات کروانے کیلئے کہا۔ معاذ حیدر نے جہانگیر سے ان کی اس شادی کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر انہوں نے انتہائی سختی کے ساتھ انہیں یہ کہہ کر خاموش کردیا تھا۔
”پاپا! آپ کا اس سے کوئی کنسرن نہیں ہونا چاہیے… یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے، میں چاہوں تو دس اور شادیاں کرلوں۔ آپ مجھے منع کیسے کرسکتے ہیں۔” جہانگیر کا لہجہ اتنا خشک اور اکھڑ تھا کہ معاذ اس سے کچھ نہیں کہہ سکے۔
آپ عمر سے میری بات کروادیں… میں اس کے موبائل پر بات کر رہا تھا، مگر اب اس کا موبائل آف ہے۔” انہوں نے معاذ حیدر سے کہا تھا۔
اور اب معاذ حیدر اس کو جہانگیر سے فون پر بات کرنے پر مجبور کر رہے تھے۔ وہ سامان پیک کرنے میں مصروف تھا۔
”مجھے ان سے بات نہیں کرنا ہے… یہ بتا دیں انہیں۔” وہ ان کی بات پر غرایا تھا۔
”مگر تم سامان کیوں پیک کر رہے ہو؟” نانو گھبرا رہی تھیں۔ وہ خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔ نانا کچھ دیر اسے دیکھ کر باہر نکل گئے۔
”وہ بات نہیں کرنا چاہتا۔” انہوں نے جہانگیر کو فون پر بتایا تھا۔



”ٹھیک ہے نہ کرے… مگر اسے صاف صاف کہہ دیں کہ کل تک اسے لئیق کے گھر پر ہونا چاہیے۔” جہانگیر نے فون پٹخ دیا تھا۔
نانا واپس عمر کے کمرے میں آگئے۔ عمر اب موبائل پر اپنی سیٹ کی بکنگ کروا رہا تھا۔ معاذ حیدر اسے دیکھتے رہے جب اس نے موبائل بند کردیا تو انہوں نے کہا۔
”تم واپس امریکہ جارہے ہو؟”
”ہاں۔”
”مگر جہانگیر نے تمہیں اسلام آباد لئیق کے پاس جانے کیلئے کہا ہے۔”
”وہ بہت کچھ کہتے رہتے ہیں، مجھے ان کی پروا نہیں ہے۔” وہ اپنا دوسرا بیگ کھولنے لگا تھا۔
”مگر تم امریکہ جاکر کرو گے کیا؟” نانو اب اس سے پوچھ رہی تھیں۔ وہ ہونٹ بھینچے بیگ میں اپنے کپڑے ٹھونستا رہا۔
”تم لڑو گے جہانگیر سے جاکر؟” نانا نے اس سے پوچھا۔
”میں آپ کو اتنا احمق لگتا ہوں؟” وہ تنک کر بولا۔
”تو پھر کیوں جارہے ہو؟”
”بس ویسے ہی۔”
”عمر۔” نانو نے جیسے تنبیہی انداز میں کہا۔
”میں فیڈ اپ ہوچکا ہوں۔” اس نے پیر سے بیگ کو زوردار ٹھوکر ماری۔ بیگ ایک جھٹکے سے دور جاپڑا تھا۔
”واپس جا کر اپنا وقت ضائع کرو گے۔” نانو نے اس سے کہا تھا۔
”وقت… یہ وقت کیا ہوتا ہے… جب زندگی ضائع ہو رہی ہو تو وقت ضائع ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔” اس کا لہجہ ترش تھا۔
”پاپا سے کہیں، بس کریں یہ سب کچھ… اب یہ سب کچھ چھوڑ دیں… یا کم از کم ہر ایک کے ساتھ رشتے جوڑنے تو نہ بیٹھ جائیں… پاپا کو شرم نہیں آتی یہ سب کچھ کرتے ہوئے۔ مگر مجھے آتی ہے… میں اپنے فرینڈز اور کزنز کے سامنے کس طرح جاؤں گا۔”
”تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے… جہانگیر جو کچھ کررہا ہے، وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔ تمہیں پروا نہیں کرنی چاہیے۔” نانو نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”کہنا بہت آسان ہے گرینی… مگر میرے لیے یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے۔”



”مگر امریکہ جا کر تم کیا کرلو گے پھر واپس آنا پڑے گا… چند ماہ بعد تمہیں انٹرویو کیلئے آنا ہے پھر وہاں جاکر وقت ضائع مت کرو۔” نانا نے اسے سمجھانے کی ایک اور کوشش کی۔
”نہیں، اب مجھے واپس نہیں آنا ہے۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے انٹرویو میں۔ کون عزت کرے گا میرے جیسے بندے کی جو سول سروس میں ہوگا اور اس کے باپ کی شادیوں کی تفصیلات ہر دوسرے سال اخبار چھاپتے رہیں۔”
”لوگوں کی یادداشت اتنی اچھی نہیں ہوتی ہے، تم جہانگیر کی وجہ سے اپنا کیریئر تباہ مت کرو۔”
”لوگوں کی یادداشت اچھی ہو یا نہ ہو، مگر میری یادداشت اچھی ہے۔ مجھے کوئی کیریئر نہیں بنانا… پاپا سے کہیں، جائیداد میں سے میرا حصہ دے دیں۔”
”عمر! تم ابھی غصے میں ہو۔ اس حالت میں تم کچھ نہیں سوچ سکتے۔”
”نہیں گرینڈ پا! میں غصے میں نہیں ہوں۔ میں نے پاپا کے ساتھ کتنا مشکل وقت گزارا ہے۔ آپ تصور نہیں کرسکتے۔ وہ کتنے بڑے ہپوکریٹ ہیں آپ نہیں جانتے۔” وہ اپنے بیڈپر بیٹھ گیا تھا۔
”افیئرز چلاتے ہیں… چلاتے رہیں مگر شادی اور وہ بھی اس طرح لڑکیوں سےtoo disgusting۔” نانا اس کے پاس بیٹھ گئے۔
”تم جہانگیر کو نہیں بدل سکتے اس کے دل میں جو آتا ہے وہ وہی کرتا ہے مگر تم اپنے ہاتھ پاؤں کاٹنے کی کوشش مت کرو۔” وہ نانا کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”ابھی تم جہانگیر پر ڈیپینڈنٹ ہو… اس کے ساتھ لڑنے کے حماقت مت کرو… جس شادی پر تمہیں اعتراض ہو رہا ہے… پتا نہیں وہ کتنا عرصہ چلتی ہے۔ جہانگیر کے بدلتے ہوئے موڈز کا تو تمہیں پتا ہی ہے… اور پھر یہ لڑکی بہت کم عمر ہے۔ چار دن جہانگیر کے پیسے پر عیش کرے گی پھر اسے چھوڑ جائے گی… یہ ماڈلز گھر نہیں بساتی ہیں۔”
معاذ حیدر کو روانی میں بات کرتے کرتے احساس ہوا تھا کہ انہوں نے عمر کے سامنے ایک غلط بات کہہ دی تھی۔ اس کے چہرے کا رنگ یک دم بدل گیا تھا۔ انہوں نے اس کی آنکھوں میں شکست خوردگی دیکھی تھی۔
اس کے پاس یکدم جیسے سارے لفظ ختم ہوگئے تھے۔ معاذ حیدر بات کہہ کر جیسے چور بن گئے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ اب اپنی بات کی تلافی کے لئے اسے کیا کہیں۔
وہ اب سرجھکائے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے ناخن سے باری باری باقی انگلیوں کے ناخن کھرچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ معاذ حیدر نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ نانو بھی ان کی بات پر اتنی ہی شرمندہ نظر آرہی تھیں جتنا وہ خود تھے۔
بالآخر انہوں نے ایک بار پھر کہنا شروع کیا۔
”ساری ماڈلز تو بری نہیں ہوتیں مگر جب عمروں میں اتنا فرق ہو تو پھر شادی کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر اگرجہانگیر جیسا آدمی ہو تو یہ کام اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔”
عمر نے ان کی بات پر سراٹھا کر غور سے انہیں دیکھا تھا۔ ”گرینڈ پا! دوبارہ کبھی یہ بات مت کہیے گا۔ میری ماں کو کبھی ماڈل بھی نہ سمجھئے گا۔ ماڈل عورت ہوتی ہے، گھر بسا سکتی ہے اگر دوسری طرف تھوڑی سی وفاداری ہو… پاپا میں وفاداری نہ کبھی تھی… نہ ہے… نہ ہوگی… جو عورت گیارہ سال کسی جہانگیر معاذ کے ساتھ گزار سکتی ہے وہ ساری عمر بھی گزار سکتی ہے، میری ماں نے یہ کوشش کی تھی۔”
وہ یک دم اس طرح زارا کی حمایت میں بولا تھا کہ معاذ حیدر اور ان کی بیوی دونوں حیران رہ گئے تھے، کہاں وہ زارا سے ملنے پر تیار نہیں تھا کہاں وہ اس کے حق میں دلیلیں دے رہا تھا۔
‘میں نے زارا کی بات نہیں کی تھی، میں جانتا ہوں، وہ اچھی عورت تھی۔ میں تو ویسے ہی بات کر رہا تھا۔” معاذ کچھ خجل ہوگئے۔
”نہیں! وہ اچھی عورت نہیں تھیں۔ اچھی عورت ہوتیں تو پاپا سے شادی کبھی نہ کرتیں۔” اگلے ہی جملے میں وہ ایک بار پھر اپنی ہی بات کی نفی کرنے لگا۔
معاذ حیدر نے جیسے کچھ بے بس ہوکر اسے دیکھا۔ ”جو بھی ہے، بہر حال تم جہانگیر کی وجہ سے اپنا کیریئر داؤ پر مت لگاؤ۔ تھوڑے سکون اور سمجھ داری سے کام لو۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس طرح بھاگم بھاگ امریکہ جاکر تمہیں کیا مل جائے گا۔ جہانگیر سے سامنا ہوگا، وہ اور مشتعل ہوگا۔ یہاں سے چلے جانے سے بھی تمہارا ہی نقصان ہوگا۔ اس لیے تم ٹھنڈے دماغ سے اس مسئلے پر غور کرو اور پھر کوئی فیصلہ کرو۔”



معاذ حیدر نے ایک بار پھر اسے سمجھانا شروع کردیا وہ پوری خاموشی کے ساتھ سرجھکائے ان کی بات سنتا رہا۔ پہلے کی نسبت وہ اب مضمحل لگ رہا تھا۔ معاذ حیدر کو اس کے تاثرات سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ کشمکش کا شکار ہوچکا ہے۔
بہت دیر تک وہ دونوں اس کے پاس بیٹھے اسے سمجھاتے رہے۔ وہ اسی خاموشی کے ساتھ کچھ جواب دیئے بغیر ان کی باتیں سنتا رہا۔
جب وہ دونوں اس کے پاس سے اٹھ کر آئے تھے تب بھی وہ خاموش تھا۔ اب اس کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پائے، اس نے کیا فیصلہ کیا تھا۔
ان دونوں کے جانے کے بعد عمر نے کمرہ لاک کر لیاتھا۔ بیڈ پر سیدھا لیٹا چھت کو گھورتے ہوئے وہ بہت دیر تک اپنا ذہن کسی بھی چیز پر مرکوز نہیں کرپارہا تھا۔
”گرینڈ پا ٹھیک کہتے ہیں۔ میں واقعی ایک ایسی کٹھ پتلی ہوں جس کی ڈوریاں پوری طرح سے آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ میں چاہوں بھی تو خود کو آپ سے نہیں چھڑا سکتا۔ آپ میرے لئے آکٹوپس سے بھی زیادہ خوفناک ثابت ہورہے ہیں۔ مگر پاپا! ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب میں خود کو آپ کے شکنجے سے چھڑا لوں گا۔ مجھے صرف یہ دیکھنا ہے کہ وہ وقت کتنی جلدی آتا ہے۔”
وہ لیٹے لیٹے بڑبڑایا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ چند منٹ وہ اس طرح پڑا رہا پھر یکدم جیسے ایک خیال آنے پر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا والٹ ہاتھ بڑھا کر اٹھالیا۔ آہستگی سے والٹ کھول کر اس نے اس میں لگی ہوئی ایک تصویر کو دیکھنا شروع کردیا۔ پھر کھلے ہوئے والٹ کو اپنی آنکھوں پر الٹ کر اس نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!