امر بیل ۔قسط۔ ۱۱۔ عمیرہ احمد
باب28
”تو علیزہ بی بی واپس آچکی ہیں۔” عمر نے رات کے کھانے کیلئے ڈائننگ روم میں آتے ہی علیزہ کو دیکھ کر خوشگوار انداز میں کہا تھا۔
علیزہ سہ پہر کو واپس پہنچ گئی تھی اور اس وقت گھر میں عمر نہیں تھا۔ وہ رات کو ہی واپس آیا تھا اور واپس آنے کے بعد ان دونوں کی ملاقات ڈائننگ روم میں ہی ہوئی تھی۔
”تو کیا کچھ سیکھا اور دیکھا آپ نے؟” وہ اب کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھ رہا تھا۔
”بہت کچھ۔” علیزہ نے مسکرا کر کہا۔
”اس بہت کچھ کے بارے میں ہمیں بتانا پسند کریں گی؟”
”اس وقت سے یہ میرے کان کھا رہی ہے، اب تمہارے کھائے گی۔” نانو نے مسکراتے ہوئے عمر کو جیسے خبردار کیا تھا۔
”تو اب کیا خیال ہے این جی اوز کے بارے میں؟” عمر نے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”آپ نے این جی اوز کے بارے میں جو کچھ کہا تھا۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتی۔” عمر نے پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ دوڑ گئی۔
”ویری گڈ… اس کا مطلب ہے آپ نے واقعی اپنی sense of judgement (جانچنے کی صلاحیت)کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ویسے کس بات سے ایگری نہیں کرتیں تم؟” اس نے پوچھا۔
”آپ کی سب باتوں سے۔” اس نے اپنی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے کہا۔
”سب باتوں سے؟” ”تمہارا مطلب ہے میں نے تم سے جھوٹ بولا ہے؟”
علیزہ یک دم گڑبڑا گئی ”نہیں… میں نے یہ تو نہیں کہا۔”
”تو پھر آپ کیا فرما رہی ہیں؟”
علیزہ کچھ دیر خاموشی سے جیسے اپنے لفظوں کو ترتیب دیتی رہی پھر اس نے کہا ”آپ نے این جی اوز کے بارے میں مجھے انفارمیشن دی تھی وہ ٹھیک نہیں تھی۔ این جی اوز نے اس علاقے میں بہت کام کیا ہے۔”
”تم نے ان کے اسکول وغیرہ دیکھے ہوں گے اس لیے۔۔۔”
علیزہ نے عمر کی بات کاٹ دی۔” نہیں بات صرف اسکولز نہیں ہے، میں نے صرف اسکولز ہی نہیں دیکھے وہاں اور بھی کچھ دیکھا ہے میں نے لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ ایک شخص جھوٹ بول سکتا ہے دو بول سکتے ہیں، مگر ہر شخص تو نہیں وہاں ہر شخص یہی کہہ رہا ہے کہ ان این جی اوز کی وجہ سے اس علاقے میں بہت ترقی ہوئی ہے۔”
”اس چیز پر بھی پورا یقین نہیں کرنا چاہیے جو آنکھوں دیکھا ہو نہ کانوں سنا ہو۔”
عمر نے اطمینان سے اس کی بات رد کی۔
”اور ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا ہو۔”
علیزہ نے کچھ اکھڑے لہجے میں کہا۔
”پھر اس پر غور کرنا چاہیے کہ جو کچھ سنائی اور دکھائی دے رہا ہے، کیا وہ واقعی ٹھیک ہے۔” عمر سنجیدہ ہوگیا تھا۔
”میں نے یہی کیا ہے۔”
عمر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا چند لمحے اسے دیکھنے کے بعد وہ بڑے عجیب سے انداز میں مسکرایا ”اور تمہارے اس غور و خوض نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ این جی اوز وہ آسمانی معجزہ ہیں جو اس ملک میں بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔”
علیزہ کو اس کے لہجے میں چھپا تمسخر برا لگا تھا۔”میں نے یہ نہیں کہا کہ این جی اوز کوئی آسمانی معجزہ ہیں۔ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ اس علاقے کے لوگ ان این جی اوز پر اعتبارکرتے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ لوگ ان کے علاقے میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ اور ان کے کام کر رہے ہیں۔”
”کن لوگوں کی بات کر رہی ہو تم؟” اس کا لہجہ یک دم سرد ہوگیا تھا۔ ” ان لوگوں کی جن کے پاس تعلیم اور شعور نام کی کوئی چیز نہیں ہے، سہولیات اور ذہنیت کے اعتبار سے اس ملک کی سب سے پسماندہ کلاس جو دیہات میں بستی ہے جس کی سوچ غلامانہ تھی، ہے اور رہے گی۔ جن پر پہلے نواب اور مہاراجہ حکومت کرتے تھے پھر جاگیردار اور رئیس اور اب این جی اوز… اور تمہارا خیال ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ کل تک گالیاں اور دھکوں کو مہربانی سمجھ کر مسکرانے والے لوگ اتنے باشعور ہوگئے کہ ان میں اچھے اور برے کی پہچان آگئی ہے؟”