Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”اجمل صاحب! آج بڑی فارم میں ہیں۔ آج ان کے ساتھ ٹکر نہ ہی لیں تو بہتر ہے۔” لئیق انکل نے ہنستے ہوئے جنرل قریشی سے کہا۔
عباس حاکم اپنی پارٹیز میں غیرملکی مہمانوں کی ایک لمبی چوڑی تعداد کو مدعو کرتے رہتے تھے اور ان کا ہی سہارا لے کر وہ اپنی پارٹیز میں شراب بھی پیش کیا کرتے تھے۔ اس وقت وہ سب لوگ بھی پہلی بار ان کی پارٹی میں شراب پیش نہ کرنے کے بارے میں شکایت کررہے تھے۔ عباس حاکم کچھ دیر وہیں ٹیبل کے پاس کھڑے خوش گپیوں میں مصروف رہے، پھر وہاں سے چلے گئے۔
عمر خاصی دلچسپی کے ساتھ وہاں ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ اس نے گفتگو میں حصہ لینے کی کوشش نہیں کی تھی شاید اس کی ایسی کوشش کو بہت اچھا بھی نہ سمجھا جاتا کیونکہ اس ٹیبل پر وہ سب سے کم عمر تھا اور وہ وہاں بیٹھے ہوئے باقی لوگ نہ صرف عمر میں اس سے بہت بڑے تھے بلکہ وہ بہت سینئر پوسٹس پر بھی تھے اور عمر کو ایسے ڈنرز اٹینڈ کرنے کا اچھا خاصا تجربہ تھا۔
جہانگیر معاذ اسے بہت کم عمری سے ہی ایسی تقریبات میں لے جاتے رہتے تھے اور وہاں ہونے والی گفتگو یا موضوعات اس کیلئے کوئی نئی چیز نہیں تھے۔ ایسی تمام تقریبات میں وہ بس خاموشی سے ایک غیرمتعلق شخص کی طرح سب کچھ سنتا اور دیکھتا رہتا۔ اس کیلئے یہ سب جیسے زندگی کا ایک حصہ تھا۔



اس وقت بھی وہاں بیٹھا وہ اسی قسم کے تبصرے اور خوش گپیاں سن رہا تھا جیسی وہ پچھلے کئی سالوں سے سنتا آرہا تھا۔
”تم بور تو نہیں ہو رہے؟” یکدم لئیق انکل کو اس کا خیال آیا تھا اور ان کے اس جملے پر ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی توجہ اس پر مرکوز ہوگئی۔ اس کا تعارف لئیق انکل پہلے ہی ان لوگوں سے کروا چکے تھے اور جہانگیر معاذ کا نام وہاں کسی کیلئے بھی نیا نہیں تھا اور جہانگیر معاذ کا بیٹا بھی ان کیلئے اتنا ہی شناسا ہوگیا تھا۔
”نہیں! بالکل نہیں۔” اس نے بے نیازی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”یہ اس عمر میں کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ ہم جیسے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے پاس بھی اتنی دیر بیٹھ کر تم بور نہیں ہوئے۔ جاؤ کہیں ادھر ادھر پھرو۔ اپنے لیے کوئی خوبصورت کمپنی ڈھونڈو، تم تو جہانگیر معاذ کے بیٹے ہی نہیں لگتے۔”
شاہد زمان کی بات پر ایک قہقہہ لگا اور عمر کا چہرہ چند لمحوں کیلئے بے اختیار سرخ ہوگیا۔ وہ آج کل باپ کے نام پر اسی طرح نروس ہوجاتا تھا۔ اسے یہی لگتا تھا کہ جہانگیر کا ذکر آتے ہی لوگ فوراً ان کی حالیہ شادی کا ذکر کرنے سے نہیں چوکیں گے اور زیادہ تر ایسا ہی ہو رہا تھا۔ اس وقت بھی وہ یہ سوچ کر نروس ہونے لگا تھا کہ اب بات جہانگیر کی شادی کی طرف نہ نکل پڑے۔
”جہانگیر کی تو بات ہی اور ہے۔ ضروری تو نہیں ہے، اولاد بھی ویسی ہی ہو۔”
لئیق انکل حسب عادت جہانگیر کو سراہنا شروع ہوگئے تھے اور عمر کو حیرت نہیں ہوئی جب اس نے ان لوگوں میں سے بہت سوں کو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھا تھا۔



وہ اپنے باپ کو جتنے قریب سے جانتا تھا، شاید کوئی دوسرانہیں جانتا تھا۔ جہانگیر معاذ کرپٹ تھا، لوز کریکٹر کا مالک تھا، خودغرض تھا۔ …خود پرست تھا… مگر عمر یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ ان تمام خامیوں کے باوجود اس کے باپ کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ اس کی شخصیت میں کوئی ایسا چارم ضرور تھا کہ جو شخص ایک بار اس سے مل لیتا اس کیلئے جہانگیر معاذ کو بھلانا ناممکن تھا۔ عمر کیلئے کسی سے دوستی کرنا ہمیشہ مشکل کام تھا۔ وہ لوگوں سے تعلقات بڑھانے میں محتاط تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس کے دوستوں کی تعداد بھی خاصی محدد تھی اور ان میں کتنوں پر وہ مکمل طور پر اعتبار کرسکتاتھا۔ وہ اس بارے میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا مگر اس نے اپنے باپ کو چند منٹوں میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتے دیکھا تھا۔ جہانگیر معاذ نہ صرف بہت آسانی سے لوگوں کو دوست بنالیا کرتا تھا بلکہ جن لوگوں کو اس نے ایک بار اپنا دوست بنالیا وہ پھر اس کے زندگی بھر دوست ہوتے تھے اور عمر نے کبھی اپنے باپ کے دوستوں میں کسی کو جہانگیر معاذ کے ساتھ دھوکا کرتے نہیں دیکھا تھا۔ جہانگیر معاذ کی اس خوبی نے اسے پچھلے کئی سالوں میں بہت سی مصیبتوں سے بچایا تھا۔ ہربار اپنے خلاف انکوائری شروع ہونے سے پہلے جہانگیر معاذ کو اس بارے میں اطلاعات ہوتیں اور پھر اپنے دوستوں کی مدد سے وہ بڑی آسانی سے پہلے ہی اس کا توڑ کرلیا کرتا تھا۔ بعض دفعہ عمر کو اپنے باپ کی اس خوبی پر رشک بھی آتا۔
اب کھانا شروع کیا جانے لگا تھا اور عمر نے شکرادا کیا کہ گفتگو کا موضوع یکدم بدل گیا تھا۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!