باب 31
”لئیق انکل! میں آپ سے صرف ایک بات پوچھ رہا ہوں۔ کیا پاپا نے واقعی مجھے آپ کے پاس انٹرویو اور سائیکالوجیکل ٹیسٹ کیلئے بھیجا ہے۔”
اس رات وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ انکل کی اسٹڈی میں ان سے پوچھ رہا تھا۔
”تمہارا کیا خیال ہے؟” انہوں نے جواب دینے کے بجائے براہ راست اس سے سوال کیا۔
”آپ میرے خیال کو چھوڑیں کیونکہ میرا خیال جان کر آپ کو کچھ زیادہ خوشی نہیں ہوگی۔ آپ صرف میرے سوال کا جواب دیں۔۔۔” اس کے لہجے میں اضطراب تھا۔
”ہاں! ٹیسٹ کی تیاری کیلئے ہی بھیجا ہے۔” لئیق انکل دوبارہ اس فائل کو دیکھنے میں مصروف ہوگئے جو ان کے سامنے میز پر کھلی پڑی تھی۔
”یہ سفید جھوٹ ہے۔” اس نے بڑی بے خوفی سے تبصرہ کیا۔
لئیق انکل نے فائل بند کردی۔ ”مجھے سفید یا سیاہ کوئی بھی جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں تم سے خوف زدہ تو نہیں ہوں کہ تم سے جھوٹ بولوں گا۔” وہ عمر کو گھورنے لگے۔
”مجھ سے خوف زدہ نہیں ہیں مگر پاپا سے ہیں۔”
”تم آخر مجھ سے کیا اگلوانا چاہتے ہو؟” وہ یکدم جیسے تنگ آگئے۔
”صرف یہ کہ آپ مجھے یہاں رکھ کر پاپا کیلئے کون سی سروسز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
”میں کسی قسم کی کوئی سروس فراہم نہیں کر رہا۔”
”تو پھر کیا کر رہے ہیں؟”
”تمہیں جہانگیر نے یہاں صرف ٹیسٹ کی تیاری کیلئے بھجوایا ہے۔” انہوں نے بڑے مستحکم لہجے میں کہا۔
”پھر آپ مجھے اتنے فنکشنز میں کیوں لے جارہے ہیں؟” اس کا لہجہ چبھتا ہواتھا۔
لئیق انکل کچھ دیر خاموشی سے جواب دیئے بغیر اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔
عمر نے بات جاری رکھی ”اور ان فنکشنز میں تین چار فیملیز سے بار بار کیوں ملوا رہے ہیں مجھے… میں اسے اتفاق تو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ ان فیملیز کا رویہ۔۔۔”
لئیق انکل نے یکدم اس کی بات کاٹ دی ”تمہارا کیا خیال ہے، میں ایسا کس لیے کر رہا ہوں؟”
”کیا مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے؟” عمر نے سنجیدگی سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں! بالکل ہے۔”
”وہ فیملیز مجھے جس طرح پرکھ رہی ہیں، اس سے تو صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے شناسائی بڑھانا چاہتی ہیں۔ کچھ روابط… اور پھر شاید رشتے بھی۔” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اور تم کسی رشتے سے اتنے خوفزدہ کیوں ہو؟” اس بار لئیق انکل کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی۔
”یعنی میرا اندازہ ٹھیک ہے۔” عمران کی مسکراہٹ سے متاثر نہیں ہوا۔
میں نے تم سے پوچھا ہے کہ تم کسی رشتے سے اتنے خوفزدہ کیوں ہو؟”
”میں خوفزدہ نہیں ہوں۔” اس بار وہ کچھ اکھڑ انداز میں بولا۔
”اگر خوفزدہ نہیں ہو تو پھر اتنی نارمل چیز پر اتنا اعتراض کیوں ہے تمہیں؟”
”کس نارمل چیز پر؟”
”شادی پر”۔
”میں اپنی شادی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔” عمر نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تم 26 سال کے ہو اب تمہاری شادی یا منگنی وغیرہ ہوجانی چاہیے۔”
”لئیق انکل! یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے، میرا ہے اور میرے مسئلے میں خود ہی ہینڈل کروں تو بہتر ہے۔” وہ اس بار خاصی بےرخی سے بولا۔
”زندگی میں چانسز سے فائدہ اٹھانا سیکھو۔ تم جانتے ہو آج کل کون کون سی فیملیز تم میں انٹرسٹڈ ہیں۔ جہانگیر معاذ کے بیٹے سے رشتہ کسی بھی فیملی کیلئے اعزاز کی بات ہے۔”
”مگر میں کسی آکشن کا حصہ بننا نہیں چاہتا… نہ ان فیملیز میں مجھے کوئی دلچسپی ہے… میری زندگی جس طرح گزر رہی ہے، میں اسے اسی طرح گزارنا چاہتا ہوں۔”
”ان فیملیز سے جڑنے والا ایک رشتہ تمہیں کہاں سے کہاں لے جاسکتا ہے۔ کبھی تم نے اس کے بارے میں سوچا ہے؟”
”آپ میرے سامنے پاپا کی فلاسفی پیش نہ کریں۔ میں ان کے طریقے سے زندگی گزارنے پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ ایک کامیاب بیوروکریٹ ضرور ہوں گے مگر ایک برے بیٹے، برے بھائی، برے شوہر اور برے باپ بھی ہیں اور اب وہ یہ رول میرے سرتھوپ دینا چاہتے ہیں۔” اس نے خاصی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”تم جہانگیر سے بہت زیادتی کرجاتے ہو۔”
”نہیں! پاپا سے کوئی برے سے برا سلوک بھی زیادتی نہیں کہلا سکتا۔ وہ اس سب کے مستحق ہیں۔” اس نے تندی سے کہا۔