Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

علیزہ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی ٹھٹھک گئی۔ عمر، نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ علیزہ کو دیکھ کر وہ مسکرایا۔
”ہیلو علیزہ! میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔”
”آپ کب آئے؟” وہ کندھے سے اپنا بیگ اتارتے ہوئے کچھ آگے بڑھ آئی۔
”صبح آیا تھا۔ تم تب کالج جاچکی تھیں۔” عمر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”بالوں کا نیا اسٹائل۔” عمر نے ستائشی انداز میں اس کے کندھوں پر جھولتے بالوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ یکدم کچھ گڑبڑا گئی۔
”یار! یہ ہیرکٹ بہت سوٹ کر رہا ہے تمہیں۔” وہ کچھ بول نہیں سکی۔
”کیوں گرینی؟” اب وہ نانو سے پوچھ رہا تھا۔ انہوں نے مسکرا کر سرہلایا۔
”میں کپڑے چینج کر کے آتی ہوں۔”
وہ یکدم بیگ پکڑ کر کھڑی ہوگئی۔ لاشعوری طور پر وہ نروس ہونے لگی تھی۔



عمر نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے اسے غور سے دیکھا۔ پھر وہ نانو کے ساتھ دوبارہ باتوں میں مصروف ہوگیا۔
علیزہ کچھ پریشان ہو کر اپنے کمرے میں آئی تھی۔ عمر کے اسلام آباد جاتے ہوئے وہ جتنی اداس اور پریشان تھی اس کی واپسی نے بھی اسے اتنا ہی پریشان کر دیا تھا۔ اسے عمر کا یکدم واپس آجانا اچھا نہیں لگا۔ نانو اور نانا سے پچھلے چند ہفتوں سے جاری اپنی سرگرمیاں چھپانا آسان تھا مگر عمر سے… وہ کچھ دیر پریشانی کے عالم میں بیڈ پر بیٹھی رہی۔ پھر خاصی بے دلی کے عالم میں اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ آج بھی اسے برٹش کونسل میں ذوالقرنین سے ملنا تھا اور اب عمر کو دیکھ کر اسے اپنا پروگرام غارت ہوتا نظر آرہا تھا کیونکہ عمر یقیناً اس کے ساتھ گفتگوکیلئے اسے گھر پر رہنے پر مجبور کرتا۔
دوپہر کا کھانا اس نے عمر اور نانو کے ساتھ کھایا تھا۔ عمر کھانے کی میز پر مسلسل چہک رہا تھا۔ علیزہ نے اسلام آباد جاتے ہوئے اس کے چہرے پر افسردگی اور تناؤ کی جو کیفیت دیکھی تھی وہ اب یکسر مفقود تھی۔ وہ نانو کو اسلام آباد میں لئیق انکل کے گھر والوں کے حالات و واقعات سنانے میں مصروف تھا اور علیزہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ نانو سے اس کے سامنے برٹش کونسل جانے کی اجازت کیسے لے۔
کھانا کھانے کے بعد یکدم عمر اٹھ کر چند لمحوں کیلئے اپنے کمرے میں گیا اور علیزہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے نانو سے برٹش کونسل جانے کی اجازت لے لی۔ نانو نے اسے جلد واپس آنے کی تاکید کی۔
”ڈونٹ وری نانو! میں جلدی آجاؤں گی۔” وہ بہت مسرور ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
بیگ لے کر جب وہ واپس لاؤنج میں آئی تو اس نے عمر کو ایک بار پھر نانو کے پاس پایا۔ علیزہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھی تھی کہ اس نے عمر کو کھڑے ہوتے اور نانو کو اپنا نام پکارتے دیکھا۔
”علیزہ! رکو۔ عمر بھی تمہارے ساتھ جارہا ہے۔”
وہ گڑبڑا گئی ”میرے ساتھ…؟”
”ہاں، تم برٹش کونسل جارہی ہو۔ میں نے سوچا، میں بھی ایک چکر وہاں کا لگا آؤں کافی عرصہ ہوگیا۔” اس بار عمر نے اس کے قریب آتے ہوئے کہا۔ وہ چند لمحوں کیلئے کچھ بھی سمجھ نہیں پائی کہ اسے کیا کہنا چاہیے۔
”مگر مجھے تو وہاں کافی دیر رہنا ہے۔” اس نے جیسے بہانا گھڑنے کی کوشش کی۔
”کوئی بات نہیں، جتنی دیر چاہو رہنا۔ میں اپنا کام کروں گا تم اپنا کام کرنا۔”



عمر نے دوستانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ علیزہ یکدم پریشان ہوگئی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ عمر اس طرح اس کے ساتھ برٹش کونسل جانے کیلئے تیار ہوجائے گا۔ وہاں ذوالقرنین اس کا انتظار کر رہا تھا اور عمر کے ساتھ جاکر وہ اس سے تو نہیں مل سکتی تھی اور اسے برٹش کونسل میں ذوالقرنین سے ملنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔ وہ شش و پنج کے عالم میں عمر کا منہ دیکھ رہی تھی اور عمر شاید اس کے تاثرات پر حیران تھا۔
”کیوں علیزہ! تم میرے ساتھ جانا نہیں چاہتیں۔” عمر نے فوراً اندازہ لگالیا، علیزہ یک دم گڑبڑائی۔
”نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے… میں تو۔۔۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اپنے پس و پیش کو کیا نام دے۔
”تو پھر ٹھیک ہے، چلتے ہیں۔” عمر نے اس کی بات مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر باہر کا رخ کیا۔
علیزہ کچھ دیر خاموشی سے اس کی پشت کو گھورتی رہی، پھر بے دلی سے اس کے پیچھے باہر پورچ میں آگئی۔
وہ اب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اس کیلئے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول رہا تھا، علیزہ کو گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ اب برٹش کونسل کسی صورت نہیں جانا چاہتی تھی… وہاں ذوالقرنین اسے دیکھتے ہی اس کی طرف آجاتا اور وہ عمر کے سامنے اس سے ملنا نہیں چاہتی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!