الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ وہ دروازہ بند کرتے ہوئے سیٹ پر بیٹھ گئی۔
”تم میری غیرموجودگی میں کچھ زیادہ خوبصورت نہیں ہوگئیں علیزہ؟”
عمر نے گیٹ سے گاڑی سڑک پر لاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ چند لمحوں کیلئے وہ سرخ ہوئی، کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اس نے خود پر قابو پایا۔
”کیوں علیزہ؟” وہ جواب چاہ رہا تھا۔
”پتا نہیں۔” اس نے بادل نانخواستہ کہا۔
”نہیں یار! واقعی بہت خوبصورت ہوگئی ہو… ہیرکٹ چینج ہوگیا ہے، چہرے پر بھی خاصی رونق ہے، بات کیا ہے۔ علیزہ؟” وہ شاید اسے چھیڑ رہا تھا مگر علیزہ کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہونے لگا۔
”کیا عمر کو کوئی شک ہوگیا ہے؟” اس نے گھبرا کر سوچا۔
”مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اسے یہاں آئے چند گھنٹے ہی تو ہوئے ہیں اور ابھی تو میری اس سے باقاعدہ بات بھی نہیں ہوئی پھر اسے ذوالقرنین کے بارے میں کچھ پتا کیسے چل سکتا ہے؟” وہ بے چین ہونے لگی۔
”نہیں، ایسا کچھ نہیں ہے… میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔” وہ اس کے مسلسل سوالوں پر زچ ہوگئی۔
”کیوں طبیعت کو کیا ہوگیا ہے؟” وہ کچھ حیران ہوا۔
”ابھی تو تم بالکل ٹھیک تھیں۔”
”پلیز آپ کچھ دیر کیلئے خاموش ہوجائیں۔” وہ یکدم بلند آواز میں بولی۔
عمر نے حیرانی سے اسے دیکھا، وہ بہت ناراض نظر آرہی تھی۔ اس کے موڈ میں اچانک ہونے والی تبدیلی اس کیلئے حیران کن تھی، علیزہ سے مزید کوئی سوال پوچھے بغیر وہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔
برٹش کونسل کے اندر عمر کے ساتھ داخل ہوتے ہوئے وہ بے تحاشا گھبرائی ہوئی تھی۔
”تمہیں کون سی بکس لینی ہیں؟” عمر نے اپنے والٹ میں سے کارڈ نکالتے ہوئے کہا۔
”مجھے کوئی بکس نہیں لینی… مجھے صرف بکس دیکھنی ہیں۔” اس نے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”اچھا بہر حال… میں برٹش ہسٹری پر ایک دو کتابیں لینا چاہ رہا ہوں۔ اب تم چاہو تو میرے ساتھ رہو یا پھر آدھ گھنٹہ تک میں exit پر آجاؤں گا۔ تم بھی تب تک وہاں آجانا۔” عمر نے پروگرام سیٹ کرتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے فوراً سرہلادیا۔ ”ٹھیک ہے میں تب تک آجاؤں گی۔” عمر اپنے مطلوبہ سیکشن کی طرف چلا گیا۔
وہ اسے تب تک دیکھتی رہی، جب تک وہ شیلوز کے پیچھے اوجھل نہیں ہوگیا۔ اس کی گھبراہٹ میں یکدم جیسے کمی آگئی تھی۔ اسے خوشی تھی کہ وہ ایک بار پھر ذوالقرنین سے مل سکتی ہے۔
جب اسے تسلی ہوگئی کہ عمر دوبارہ کسی کام کیلئے بھی واپس اس کی طرف نہیں آئے گا تو پھر وہ اس حصے کی طرف بڑھ آئی جہاں ذوالقرنین سے اس کی ملاقات ہوتی تھی۔ ہمیشہ کی طرح ذوالقرنین وہاں موجود تھا۔
”آج پہلی بار تم دیر سے آئی ہو۔” ذوالقرنین نے اسے دیکھتے ہی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”تھوڑی پرابلم ہوگئی تھی، اس لیے دیر ہوگئی۔” وہ کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھ گئی۔
”کیا پرابلم ہوگئی؟” ذوالقرنین نے استفسار کیا۔
”نانو نے میرے کزن کو میرے ساتھ بھیج دیا ہے۔” اس نے ہلکی آواز میں کہا۔
”کیا۔۔۔” ذوالقرنین یکدم گھبرایا ”کزن کو بھیج دیا ہے؟ کہاں ہے وہ؟ تم اسے یہاں کیوں لائی ہو؟”
”میں خود نہیں لائی ہوں… نانو نے زبردستی بھجوایا ہے… دراصل اسے بھی برٹش کونسل میں کوئی کام تھا… تو نانو نے اسے میرے ساتھ ہی بھجوا دیا۔” وہ بتانے لگی۔
”اب وہ کہاں ہے؟”
”وہ اپنی بکس دیکھ رہا ہے۔”
”تم نے اسے میرے بارے میں تو کچھ نہیں بتایا۔” ذوالقرنین گھبرایا ہوا تھا۔
”نہیں۔۔۔”
”تم بالکل بے وقوف ہو علیزہ…! اگر کزن ساتھ آیا تھا تو تمہیں مجھ سے ملنے نہیں آنا چاہیے تھا۔”
”مگر کیوں؟ تم میرا انتظار کرتے رہتے۔ اور پھر عمر نے کہا ہے کہ وہ آدھ گھنٹہ کے بعد مجھے ملے گا۔”
”اور اگر وہ آدھ گھنٹے سے پہلے ہی یہاں آگیا اور اس نے مجھے تمہارے ساتھ دیکھ لیا تو…؟”
”اسے کیسے پتا چلے گا کہ میں یہاں ہوں میں نے اسے بتایا ہی نہیں کہ میں کس سیکشن میں جارہی ہوں۔”
”یہ لائبریری ہے… یہاں کسی کو ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور ضروری نہیں کہ وہ تمہیں ڈھونڈنے کیلئے ہی اس طرف آئے وہ کسی بھی کام سے ادھر آسکتا ہے۔”
”مجھے اس کا خیال نہیں آیا۔” علیزہ کچھ پریشان ہوئی۔