Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے…؟ جانتے ہو کیا کہہ رہے ہو؟” نانو کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
”بیگم صاحبہ! میں سچ کہہ رہا ہوں… علیزہ بی بی کو ڈھونڈنے میں ہی تو دیر ہوئی ہے۔” ڈرائیور نانو سے کہہ رہا تھا۔
عمر نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو نہیں سنی۔ وہ نانو کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر چونکا تھا، وہ اب بے تابی کے عالم میں صوفہ سے کھڑی ہو گئی تھیں۔
”کیا ہوا گر ینی؟ خیریت تو ہے؟” اس نے معاملے کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کی۔
”علیزہ کالج میں نہیں ہے۔” انہوں نے فق چہرے کے ساتھ کہا۔
”کیا…؟” عمر بھی یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”علیزہ کالج میں نہیں ہے، ڈرائیور اس کا انتظار کرکے تھک کر آگیا ہے۔” نانو اب روہانسی ہونے لگی تھیں۔
”اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ وہ کسی دوست کی طرف چلی گئی ہو گی۔” عمر نے نانو کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
”نہیں وہ کبھی کسی دوست کی طرف مجھے بتائے بغیر نہیں جاتی، خاص طور پر کالج سے، اور اس کی دوست ہے بھی کون… شہلا… ڈرائیور کہہ رہا ہے کہ چوکیدار نے اندر موجود لڑکیوں سے علیزہ کے بارے میں پوچھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ آج کالج ہی نہیں آئی۔”
”کیا … کالج نہیں گئی؟” عمر ہکا بکا رہ گیا۔
”اگر وہ کالج نہیں گئی تو کہاں گئی ہے؟” نانو اب بڑبڑا رہی تھیں۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ علیزہ کالج نہ گئی ہو۔…وہ وہیں ہو گی ڈرائیور کو غلط فہمی ہو سکتی ہے، ہو سکتا ہے لڑکیوں نے کسی دوسری علیزہ کے بارے میں کہا ہو؟” عمر یک دم ڈرائیور کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”نہیں جی مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی، چوکیدار کو علیزہ بی بی کا پتہ ہے، پہلے بھی کئی بار میں اسی کے لئے ذریعے علیزہ بی بی کو بلواتا ہوں، پھر آج غلط فہمی کیسے ہو سکتی ہے؟
ویسے بھی کالج تو بالکل خالی ہو چکا تھا تو صرف چند لڑکیاں ہی رہ گئی تھیں اگر علیزہ بی بی وہاں ہوتیں تو اب تک گیٹ پر ہی موجود ہوتیں۔”
ڈرائیو نے کچھ گھبرائے ہوئے انداز میں وضاحت دینے کی کوشش کی۔
”گرینی! آپ ذرا شہلا کو فون کریں، ہو سکتا ہے وہ اس کے گھر ہو؟”



عمر نے نانو سے کہا، عمر اب کچھ پریشان نظر آنے لگا۔ نانو کچھ بوکھلائی ہوئی فون کے پاس گئیں اور انہوں نے ریسیور اٹھا کر کال ملانی شروع کر دی۔
”فون شہلا کی ممی نے اٹھایا، نانو نے ان کی آواز سنتے ہی ان سے شہلا کے بارے میں پوچھا۔
”شہلا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اس لئے وہ آج کالج نہیں گئی… اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں سو رہی ہے۔”
شہلا کی ممی نے کہا اور نانو کی گھبراہٹ میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ مزید کچھ کہے سنے بغیر انہوں نے فون رکھ دیا۔
”شہلا تو آج کالج گئی ہی نہیں۔” انہوں نے کانپتی آواز میں عمر سے کہا۔
”ہو سکتا ہے علیزہ کسی اور فرینڈ کے ساتھ چلی گئی ہو؟”
”نہیں اس کی اور کوئی ایسی دوست نہیں ہے جس کے ساتھ وہ اس طرح بغیر بتائے چلی جائے… وہ تو شہلا کے گھر بھی مجھے بتائے بغیر نہیں جاتی۔ صدیق! تم مجھے کالج لے کر چلو، میں خود وہاں دیکھتی ہوں آخر وہ جا کہاں سکتی ہے؟”
نانویک دم کھڑی ہو گئیں۔
”نہیں گرینی! آپ یہیں رہیں… میں جاتا ہوں؟” عمر نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکا تھا۔
”نہیں مجھے بھی ساتھ جانا ہے۔”
”آپ کے ساتھ جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ آپ گھر پر ہی رہیں… میں خود کالج جاتا ہوں، گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ وہیں ہو گی۔”
عمر بات کرتے کرتے نانو کا جواب سنے بغیر باہر نکل آیا۔
ڈرائیور صدیق بھی اس کے پیچھے آیا تھا پورچ میں آکر عمر نے گاڑی کی چابی اس سے لے لی۔
”مجھے اکیلے ہی جانا ہے، میں خود گاڑی ڈرائیو کر لوں گا۔” ا س نے ڈرائیور سے کہا اور پھر گاڑی لے کر باہر نکل آیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!