Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”تیسرے دن وہ عمر کے ساتھ ایک پارک کی پارکنگ میں موجود تھی۔ کار سے اترتے ہوئے وہ نروس ہو رہی تھی اس نے ذوالقرنین کو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ آج عمر کو بھی ساتھ لا رہی ہے اور اب وہ خوفزدہ تھی کہ کہیں ذوالقرنین اس بات پر ناراض نہ ہو جائے۔
ذوالقرنین پارک کے اندر مخصوص بینچ پر بیٹھا ہوا تھا عمر کے ساتھ چلتے ہوئے علیزہ نے اسے دور سے ہی کھڑے ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ شاید اس نے علیزہ کو آتے ہوئے دیکھا لیا تھا اور نہ صرف علیزہ کو بلکہ اس کے ساتھ آتے ہوئے عمر کو بھی اور اس کے کھڑے ہونے کی وجہ بھی یہی تھی۔
اس کے پاس پہنچ کر اس نے ذوالقرنین کے چہرے پر بوکھلاہٹ اور ناگواری کے تاثرات دیکھے تھے۔
”ہیلو، میں عمر ہوں آپ یقیناً ذوالقرنین ہیں۔”
عمر نے اس کے پاس پہنچ کر نہایت دوستانہ انداز میں ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ذوالقرنین نے کسی مسکراہٹ کے بغیر اس سے ہاتھ ملایا۔
”آپ سے ملنے کا خاصا شوق تھا مجھے… علیزہ کافی تعریف کرتی رہتی ہے آپ کی۔”
عمر اس کی سرد مہری سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔
”میں نے سوچا مجھے بھی ملنا چاہئے آپ سے، مجھے تو آپ جانتے ہی ہوں گے، میں علیزہ کا کزن ہوں۔”
ذوالقرنین اب بھی کچھ بول نہیں پا رہا تھا شاید اس کے لئے علیزہ کی یہ حرکت اتنی غیر متوقع اور حیران کن تھی کہ اسے اپنے اوسان پر قابو پانے میں وقت لگ رہا تھا۔
”آپ مجھ سے ملنا کیوں چاہتے تھے؟” ذوالقرنین نے بالآخر عمر سے کہا اس کا لہجہ خاصا خشک تھا۔
”بس ایسے ہی کچھ باتیں کرنی تھیں آپ سے۔”
”کیا باتیں کرنی تھیں؟”



”اس طرح کھڑے کھڑے کیا بات ہو سکتی ہے۔ آرام سے بیٹھتے ہیں۔ کوئی ایسی بھی خاص بات نہیں ہے۔” عمر نے مسکراتے ہوئے بینچ کی طرف اشارہ کیا۔
”نہیں مجھے جلدی ہے، کچھ کام ہے… یہ تو علیزہ نے اصرار کیا تو میں یہاں ملنے کے لئے آگیا، ورنہ آج میرے پاس بالکل وقت نہیں تھا۔”
ذوالقرنین نے اپنی رسٹ واچ پر نظر دوڑاتے ہوئے عمر سے کہا۔
”آپ کو جو بات کرنی ہے ،وہ جلدی کریں۔” عمر نے ذوالقرنین کو خاصی گہری نظروں سے دیکھا۔ ذوالقرنین کو اس کی نظروں سے الجھن ہوئی تھی۔
”علیزہ کو کب سے جانتے ہو؟” اس نے ذوالقرنین سے پوچھا۔
”یہ بات تو آپ علیزہ سے بھی پوچھ سکتے تھے۔ کیا صرف اتنی سی بات جاننے کے لئے یہاں آئے ہیں؟”
”نہیں جاننا تو کافی کچھ ہے۔ یہ تو بس ویسے ہی پوچھ لیا۔”
”ایک ڈیڑھ ماہ ہوا ہے۔” ذوالقرنین اب پر سکون ہوتا جا رہا تھا۔
”علیزہ بتا رہی تھی، آپ دونوں کی خاصی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔”
اس بار ذوالقرنین نے خاصے غور سے علیزہ اور عمر کو باری باری دیکھا۔
”ہو سکتا ہے علیزہ نے ایسا محسوس کیا ہو، میں کیا کہہ سکتا ہوں۔”
”آپ کی کافی دوستی ہے علیزہ کے ساتھ؟”
”ہاں ہے۔”
”اکثر ملتے رہتے ہیں؟”
”اکثر ؟ یونہی کبھی کبھار ملتے ہیں۔”
”میں جاننا چاہ رہا ہوں کہ یہ دوستی کس سلسلے میں ہے؟ کیا آپ علیزہ کے بارے میں سیریس ہیں؟”
”سیریس سے کیا مراد ہے آپ کی؟”
”میرا مطلب ہے شادی کرنا چاہتے ہیں اس سے؟”
”واٹ شادی… یہ آپ سے کس نے کہا؟”
علیزہ کا رنگ فق ہو گیا عمر اسی پر سکون انداز میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا، ذوالقرنین اب ناراض نظر آرہا تھا۔
”شادی نہیں کرنا چاہ رہے تو پھر یہ دوستی کس سلسلے میں ہے؟”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!