Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”ہر دوستی شادی کے لئے تو نہیں ہوتی۔”
”تو پھر کس لئے ہوتی ہے؟ وقت گزارنے کے لئے”
”You can say that (آپ کہہ سکتے ہیں۔)” ذوالقرنین نے کندھے اچکاتے ہوئے خاصی لاپروائی سے کہا۔
”تو پھر تمہیں علیزہ سے یہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی کہ تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو… یا یہ کہ تم اس سے محبت کرتے ہو؟”
”میں نے علیزہ سے ایسا کچھ نہیں کہا۔” ذوالقرنین نے ڈھٹائی سے جھوٹ بولا۔
علیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”آپ نے مجھ سے کہا تھا ذوالقرنین؟”
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔” اس نے علیزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑی بے خوفی سے کہا۔
وہ شاک کے عالم میں ذوالقرنین کو دیکھنے لگی۔ یہ وہ ذوالقرنین نہیں تھا جسے وہ پچھلے ایک ماہ سے جانتی تھی۔ وہ بالکل بدل چکا تھا۔
”تو تمہیں علیزہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نہ ہی تم اس سے شادی کا کوئی ارادہ رکھتے ہو۔ تو پھر تم ملتے کس مقصد کے لئے ہو، ساتھ کیوں لے لے کر پھرتے ہو؟”
”میں نہیں، وہ میرے ساتھ پھرتی ہے… وہ ملنے آتی ہے مجھ سے۔۔۔” عمر بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھتا رہا۔
”اور جہاں تک ساتھ پھرنے کا تعلق ہے تو ساتھ تو تم بھی لئے پھرتے ہو اسے……
…پھر تم کیوں نہیں شادی کر لیتے اس سے… اپنی مصیبت دوسروں کے سر پر کیوں ڈالنا چاہتے ہو؟”
ذوالقرنین کے لہجے میں تمسخر تھا۔ علیزہ خوف کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”کیا ذوالقرنین میرے بارے میں اس طرح سے سوچتا ہے۔”



”مجھے نہیں پتا، یہ تم سے کیا کہتی ہے یا بتاتی رہی ہے۔ مگر میں اتنا احمق نہیں ہوں کہ اس سے محبت یا شادی کا وعدہ کروں، اگر اسے خود ہی میرے بارے میں کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی ہو جائے تو میں کیا کر سکتا ہوں، مگر اس طرح اگر کوئی کزن کو پکڑلائے۔ ایموشنل بلیک میلنگ کے لئے تو میں کم از کم وہ بندہ نہیں ہوں جو اس طرح پھنس جائے اس جیسی ہزار لڑکیوں کے ساتھ میل جول ہے میرا… سب کے ساتھ شادی کر لوں کیا؟” اس کے لہجے میں تضحیک تھی۔
”مجھے تم سے مل کر واقعی بڑی خوشی ہوئی ہے ذوالقرنین! کیونکہ تم میری توقعات پر بالکل پورا اترے ہو… میں جتنے گھٹیا آدمی سے ملنے کا سوچ کر آیا تھا، تم اس سے زیادہ گھٹیا نکلے ہو… بہرحال دوبارہ تم نے اگر کبھی علیزہ کو فون کیا یا اس سے ملنے کی کوشش کی تو ملنے سے پہلے وصیت کر آنا کیونکہ پھر تم دوبارہ واپس نہیں جا سکو گے ۔ آؤ علیزہ!”
عمر نے اسی طرح پر سکون انداز میں اس سے بات کرنے کے بعد علیزہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور واپس مڑ گیا۔ اپنے پیچھے اسے ذوالقرنین کا ایک طنزیہ قہقہہ سنائی دیا۔
وہ اسے ساتھ لے کر پارکنگ میں آگیا، گاڑی میں بیٹھ کر اس نے پہلی بار علیزہ کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ وہ بالکل زرد تھی۔ عمر اس کی کیفیات کا اندازہ لگا سکتا تھا، وہ جانتا تھا اسے شاک لگا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اسے ذوالقرنین کے منہ سے کہی جانے والی کسی بات پر یقین نہیں آیا ہوگا، اور عمر کو اس وقت اس سے ہمدردی بھی محسوس ہو رہی تھی۔
کار اسٹارٹ کرنے کے بجائے اس نے علیزہ کی طرف مڑ کر اس سے کہا۔
”کسی بھی چیز کو سر پر سوار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زندگی میں یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔
Experience is the other name of our mistakes, so take it as an experience.
(ہماری غلطیوں کا دوسرا نام تجربہ ہے۔ اسے ایک تجربہ سمجھو۔)
علیزہ نے عمر کودیکھنے کی کوشش نہیں کی، وہ ونڈ اسکرین سے باہر پارکنگ میں نظر آنے والی گاڑیوں کو دیکھتی رہی۔
”یہ تو بہت معمولی سی چیز ہے۔ زندگی میں اس سے بھی بڑی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس سب کو بھول جاؤ وہ بالکل پریشان نہیں ہو گا، تو تمہیں بھی پریشان یا شرمندہ نہیں ہونا چاہئے۔”
عمر نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اب بھی خاموش تھی۔



وہ گھر تک پورا راستہ اس سے باتیں کرتا رہا اسے چیئر اپ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ اس کی باتیں سنتی رہی مگر اس نے ایک بار بھی اس کی باتوں کے جواب میں کچھ کہا نہ ہی اسے دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ کار سے باہر دیکھتی رہی۔
عمر اسے گھر پر ڈراپ کرنے کے بعد پھر گاڑی لے کر باہر نکل آیا۔ اسے مارکیٹ سے کچھ شاپنگ کرنی تھی اور پھراسے قائداعظم لائبریری جانا تھا۔ شاپنگ کے دوران اور بعد میں لائبریری میں بھی اس کے ذہن پر علیزہ ہی سوار رہی تھی۔ وہ جانتا تھا وہ اتنی میچیور اور سمجھ دار نہیں تھی کہ ہر چیز کو فوری طور پر ذہن سے جھٹک دیتی۔ وہ سوچ رہا تھا۔ واپسی پر وہ رات کو پھر کچھ وقت اس کے ساتھ گزارے گا۔ چند دن لگیں گے مگر وہ نارمل ہو جائے گی۔ اس نے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!