Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

شام سات بجے وہ واپس گھر آگیا۔ نانو لاؤنج میں فون پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھیں۔ وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔وہ فون بند کرنے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئیں تو اس نے ان سے علیزہ کے بارے میں پوچھا۔
”وہ تب سے اپنے کمرے میں ہے جب سے تم چھوڑ کر گئے ہو۔”
انہوں نے اطلاع دی۔ عمر بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا۔ اگلا ایک ڈیڑھ گھنٹہ اس نے اپنے کمرے میں اپنے کچھ کام کرتے ہوئے گزارا۔
ساڑھے آٹھ کے قریب وہ کھانا کھانے کے لئے لاؤنج میں آیا۔ خانساماں کھانا لگا رہا تھا اور نانو کچن میں تھیں۔
”گرینڈ پا ابھی تک واپس نہیں آئے۔” عمر نے کچن میں پانی پیتے ہوئے کہا۔
”وہ آئے تھے، لیکن دوبارہ چلے گئے۔ آج کسی ڈنر میں انوائیٹڈ تھے۔”
نانو نے اسے بتایاوہ ان کے ساتھ باتیں کرتا ہوا ڈائننگ روم میں چلا گیا۔
”مرید! علیزہ کو بلا لاؤ۔” نانو نے ڈائننگ روم میں داخل ہوتے ہوئے خانساماں سے کہا۔ ”آج تو شام کی چائے بھی نہیں لی اس نے۔”
”اس کی طبیعت خراب تھی کچھ شاید اس لئے۔” عمر نے جھوٹ بولا۔
نانو نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”اچھا… مجھے تو اس نے نہیں بتایا… بتاتی تو میں اسے کوئی میڈیسن ہی دے دیتی۔”
”وہ پریشان نہیں کرنا چاہ رہی ہو گی۔ ہو سکتا ہے سو گئی ہو۔” عمر نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
چند منٹ بعد خانساماں ڈائننگ روم میں داخل ہوا ”علیزہ بی بی دروازہ نہیں کھول رہیں… میں نے بہت دفعہ دستک دی ہے۔ آوازیں بھی دی ہیں۔” اس نے نانو سے کہا۔



”میں خود دیکھتی ہوں، کہیں زیادہ ہی تو طبیعت خراب نہیں ہو گئی؟ نانو اٹھ کر چلی گئیں عمر وہیں بیٹھا سوچتا رہا… اس نے کھانا شروع نہیں کیا۔ وہ نانو کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا، اگلے کئی منٹ نانو کی واپسی نہیں ہوئی ۔ پھر اچانک اس نے گھر کے اندر سے دروازہ بار بار بجانے کی بلند آواز اور نانو کو بلند آواز میں علیزہ کا نام پکارتے سنا… وہ بے اختیار ڈائننگ روم سے نکل آیا۔
”کیا بات ہے نانو؟” وہ کوریڈور میں آگیا۔
”عمر! علیزہ دروازہ نہیں کھول رہی۔ نہ ہی اندر سے کوئی جواب دے رہی ہے۔ اتنی گہری نیند تو وہ کبھی نہیں سوتی۔”
نانو بے حد پریشان نظر آرہی تھیں، عمر کی چھٹی حس، اچانک اسے کسی خطرے سے خبردار کرنے لگی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر خود دروازے کو دو تین بار بجایا اور علیزہ کا نام پکارا… اندر سے اب بھی کوئی آواز نہیں آئی تھی۔
”اس کمرے کی کوئی چابی ہے آپ کے پاس؟” عمر نے مڑ کر نانو سے کہا۔
چند منٹ میں نانو چابیاں لے آئی تھیں۔ عمر نے ان کے ہاتھ سے کی رنگ لیا اور دروازہ کھولنے لگا۔ چند سکینڈز میں لاک کھل گیا تھا عمر نے دروازہ کھول دیا کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ عمر نے برق رفتاری سے دیوار پر سوئچ بورڈ کو ڈھونڈ کر لائٹ آن کی۔



علیزہ بیڈ پر کمبل لئے لیٹی ہوئی تھی۔ عمرتیزی سے اس کی طرف گیا اور ایک بار پھر اس کا نام پکارا۔ وہ اب بھی ویسے ہی بے حس و حرکت تھی۔ ایک لمحہ کے لئے عمر کا سانس رک گیا۔
”کیا ہوا ہے اسے؟” اسے اپنی پشت پر نانو کی آواز سنائی دی۔ عمر نے علیزہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اس کا جسم ٹھنڈا تھا۔
”گرینی ڈرائیور کو کہیں گاڑی نکالے… پلیز جلدی کریں۔ علیزہ کو ہاسپٹل لے کر جانا ہے۔” اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے اس نے پیچھے پلٹ کر نانو سے کہا، نانو کچھ نہ سمجھتے ہوئے واپس پلٹ گئیں۔
عمر اب اس کی نبض ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔ اس کا پورا وجود جیسے کسی طوفان کی زد میں آیا ہوا تھا۔
”یہ سب میری وجہ سے ہوا… مجھے کیوں خیال نہیں آیا کہ وہ یہ سب کچھ بھی کر سکتی ہے۔”


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!