Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”آپ کو میرا مذاق اڑانے کا کیا حق پہنچتاہے؟” وہ اس کی کوشش سے متاثر نہیں ہوئی۔ ”آپ کو اپنے علاوہ دوسروں کی ہر بات مذاق لگتی ہے۔ کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ میں بھی مذاق میں آپ کے بارے میں ایسی باتیں کروں جیسی آپ کرتے ہیں۔” وہ تیز آواز میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”میں ایکسکیوز کرتا ہوں۔ میں نے جو بھی کہا غلط کہا۔ میں ایکسکیوز کرنے ہی یہاں آیاہوں۔” عمر نے ایک دم دونوں ہاتھ اٹھا کر اس سے کہا۔
وہ اب بھی بولتی رہی ”آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اپنی sense of judgement استعمال کر کے اپنی رائے بناؤں اور جب میں ایسا کرتی ہوں تو آپ مجھ پر ہنستے ہیں۔ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ آپ کے نزدیک دنیا میں آپ کے علاوہ کوئی دوسرا صحیح رائے رکھنے کے قابل ہی نہیں ہے۔”
”علیزہ! میں نے ایسا نہیں کہا۔ میں تمہیں ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ہی ایک بات کہی۔” عمر بالکل مدافعانہ رویہ اختیار کیے ہوئے تھا مگر علیزہ اس کی بات سنے بغیر بول رہی تھی۔
”میں نے این جی اوز کے بارے میں جو کچھ کہا ٹھیک کہا۔ میں نے جو دیکھا، جو محسوس کیا وہی بتایا۔ میں نے آپ کی رائے کا مذاق نہیں اڑایا۔ میں نے آپ کی ہر بات سنی مگر آپ… آپ میری باتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں… ایڈیٹ؟”
عمر کے چہرے سے اب مسکراہٹ بالکل غائب ہوچکی تھی۔
”آپ کو لگتا ہے، دنیا میں آپ کے علاوہ اور کوئی جینئس نہیں ہے۔”
”میں نے ایسا نہیں کہا۔”



”آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے علاوہ کسی کے پاس sense of judgement (پرکھنے کی صلاحیت) ہی نہیں ہے۔”
”تم اس وقت غصے میں ہو، تمہیں پتا نہیں، تم کیا کہہ رہی ہو۔ میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔”
عمر یکدم پلٹ گیا مگر علیزہ بجلی کی رفتار سے اس کے راستے میں آگئی۔
”نہیں! آپ میری بات سنیں، اس کے بعد جائیں۔”
”میری ایک چھوٹی سی بات پر اتنا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”مجھے آپ کی کسی بات پر مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ آپ کو ہر بات کہنے کا حق ہے لیکن مجھے کچھ بھی کہنے کا حق نہیں ہے۔”
”تم بہت کچھ کہہ رہی ہو علیزہ! اور میں سن بھی رہا ہوں۔ اس کے باوجود کہ تمہارا رویہ بہت انسلٹنگ ہے۔”
”میں نے آپ سے کیا کہا ہے؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔ جو کچھ آپ مجھ سے کہہ چکے ہیں، اس کے سامنے تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔” وہ اب بھی اسی طرح برہم تھی۔
”میں اپنی بات کیلئے ایکسکیوز کر چکا ہوں۔”
”آپ ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔ انسلٹ کرتے ہیں۔ پھر انسلٹ کرتے ہیں اور ایسا بار بار کرتے رہتے ہیں۔”
علیزہ! تم غلط کہہ رہی ہو۔” عمر حتی الامکان اپنے لہجے کو نارمل رکھ رہا تھا۔
”میں غلط نہیں کہہ رہی ہوں۔ آپ نے اس دن بھی میری انسلٹ کی تھی جب انکل جہانگیر کے ساتھ آپ کا جھگڑا ہوا۔”
عمر کے چہرے کے تاثرات یکدم تبدیل ہوگئے۔ ”وہ تمہاری غلطی تھی، تم میرے کمرے میں اس طرح کیوں آئی تھی۔” اس نے سرد آواز میں علیزہ سے کہا۔
”نہیں آپ کو اس بات پر غصہ نہیں آیا کہ میں آپ کے کمرے میں اس طرح کیوں آئی تھی۔ آپ کو غصہ اس بات پر آیا تھا کہ میں یہ بات جان گئی ہوں کہ آپ ڈرنک کرتے ہیں۔”
”تمہیں پتہ چل گیا تو کیا فرق پڑتا ہے اور تم ہو کون جس کو یہ پتا چلنے سے مجھے کوئی فکر ہوگی۔” اس کی آواز میں اب تلخی تھی۔



”میں نے نانو کو نہیں بتایا کہ آپ ڈرنک کرتے ہیں۔ اگر میں نانو کو بتا دیتی تو۔۔۔”
عمر اس کی بات پر یکدم بھڑک اٹھا۔ ” تو پھر… پھر کیا ہوتا؟ وہ مجھے شوٹ کردیتیں یا اس گھر سے نکال دیتیں۔ تم جس کو چاہو بتاؤ مجھے کوئی پروا نہیں، اس گھر کا کون سا مرد شراب نہیں پیتا۔ وہ خود گرینڈ پا کو ڈرنک کرتے دیکھتی رہی ہیں۔ وہ کس منہ سے مجھ سے اس بارے میں بات کرسکتی ہیں۔”
علیزہ جیسے رونا بھول گئی۔ ”آپ کو شرم آنی چاہیے۔ اس طرح کی بات کرتے ہوئے۔”
”مائینڈ یور لینگویج علیزہ ! تم کافی بکواس کرچکی ہو اور میں سن چکا ہوں۔ اب اپنا منہ بند کرلو تو بہتر ہے۔”
‘مجھے آپ سے نفرت ہے۔ آپ دنیا کے سب سے گندے اور بدتمیز آدمی ہیں۔”
وہ بلند آواز میں چلائی۔ جواباً عمر نے اس کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ مارا تھا۔ علیزہ گال پر ہاتھ رکھے بالکل ساکت رہ گئی تھی۔ دنیا میں آخری چیز جو وہ کسی سے توقع کرسکتی تھی، وہ عمر کا خود پر ہاتھ اٹھانا تھا۔ وہ پلکیں جھپکے بغیر بے یقینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”مجھے اپنے بارے میں کسی شخص کے تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے انگلی اٹھا کر کہا اور پھر وہ تیزقدموں کے ساتھ رکے بغیر کمرے سے نکل گیا۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!