ذوالقرنین سے علیزہ کی دوسری ملاقات بھی شہلا کے ساتھ ہی ہوئی تھی، علیزہ کالج سے واپسی پر شہلا کے ہاں جانے کیلئے اس کے ساتھ گئی، راستے میں دونوں آئس کریم کھانے کیلئے لبرٹی میں رک گئیں اور آئس کریم کھانے کے ساتھ وہ ونڈو شاپنگ میں مصروف تھیں۔ جب ہیلو کی ایک آواز نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ذوالقرنین تھا۔ علیزہ اسے دیکھتے ہی حواس باختہ ہوگئی۔
”ارے آپ… آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟” شہلا نے ذوالقرنین کو دیکھتے ہی خاصی حیرت اوربے تکلفی کا مظاہرہ کیا۔
”تقریباً وہی کر رہا ہوں جو آپ لوگ کر رہی ہیں۔” اس نے علیزہ پر نظریں جماتے ہوئے کہا جس کیلئے وہاں کھڑے رہنا مشکل ہو رہا تھا۔
”ویسے آپ کا کیا خیال ہے ہم یہاں کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟” شہلا نے خاصی شوخی سے کہا۔
”آپ مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھیں۔” جواب دینے والے نے کمال اعتماد سے کہا۔
”ارے واہ… آپ کو تو اچھی خاصی خوش فہمی ہے اپنے بارے میں۔”
”اگر خوش فہمی ہے تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ آفٹر آل میں اچھا خاصا گڈلکنگ بندہ ہوں۔ ایسی خوش فہمیاں افورڈ کرسکتا ہوں۔ کیوں علیزہ؟” اس کے لہجے میں شرارت تھی اور علیزہ کا دل چاہ رہا تھا۔ وہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ جائے۔ ”ویسے یہ سوال آپ نے علیزہ سے ہی کیوں کیا ہے؟ مجھ سے بھی کرسکتے ہیں۔” شہلا نے دوبدو جواب دیتے ہوئے کہا۔
”آپ مجھے علیزہ جیسی باذوق نہیں لگتیں، اس لیے آپ سے رائے لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” اس کی بے تکلفی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”اچھا اور علیزہ کے ذوق کے بارے میں آپ کیسے جانتے ہیں؟” شہلا اب باقاعدہ بحث پر اتر آئی۔
”علیزہ کے صرف ذوق کے بارے میں ہی نہیں جانتے اور بھی بہت کچھ جانتے ہیں ہم۔” اس بار ذوالقرنین کا لہجہ معنی خیز تھا۔
”مثلاً…؟” شہلا نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر بات آپ کو بتائی جائے مس شہلا۔”
”ارے!کس طرح آپ نے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ جب علیزہ سے رابطہ کرنا چاہ رہے تھے تو واحد ذریعہ میں ہی نظر آرہی تھی اور اب… اب مجھے کچھ بتانا بھی ضروری نہیں لگ رہا۔” شہلا یکدم برامان گئی۔
”تم فضول مت بولا کرو۔ اب چلو یہاں سے۔”
علیزہ نے یکدم اس کا بازو پکڑ کر کھینچنا شروع کردیا۔ اس نے شہلا کو یہ ضرور بتایا تھا کہ ذوالقرنین نے اسے چند بار فون کیا تھا مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اس سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہے اور اسے خوف تھا کہ مذاق میں ہونے والی اس گفتگو کے دوران ذوالقرنین کوئی ایسی بات نہ کردے جس سے شہلا کو یہ پتہ چل جائے کہ اس نے ذوالقرنین سے رابطے کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا ہے۔
”علیزہ! آپ انہیں کہاں لے جارہی ہیں۔ بھئی! میں تو آپ دونوں کو لنچ کروانے کا سوچ رہا ہوں۔” ذوالقرنین نے فوراً مداخلت کی۔
”لنچ؟ ضرور۔”شہلا فوراً آمادہ ہوگئی۔
”نہیں۔ بہت دیر ہو رہی ہے ابھی مجھے شہلا کے گھر جانا ہے اور پھر واپس اپنے گھر بھی جانا ہے۔” علیزہ نے نظریں ملائے بغیر فوراً کہا۔
”یار میرے گھر جاکر بھی تو ہم نے کھانا ہی کھانا ہے۔ اب ذوالقرنین آفر کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے چلتے ہیں۔ ایڈونچر رہے گا۔” شہلا نے اپنا بازو اس کے ہاتھوں سے چھڑاتے ہوئے کہا۔
”نہیں! شہلا دیر ہو رہی ہے۔”
”کبھی کبھی دیر ہوجانے میں کوئی ہرج نہیں۔ اس کو بھی ایڈونچر ہی سمجھیں۔” ذوالقرنین نے علیزہ کے انکار کے جواب میں کہا۔
”نہیں۔ مجھے جانا ہے۔”
”یار! جب کوئی اتنا اصرار کرے تو اس کی بات مان لینی چاہیے۔ روز روز ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں جو خود بخود ہی لنچ کی دعوت دیتے پھریں۔”
شہلا پر بھی علیزہ کے انکار کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
پھر علیزہ کے مسلسل انکار کے باوجود وہ دونوں اسے ایک ریسٹورنٹ میں لے گئے تھے۔ ذوالقرنین اور شہلا لنچ کے دوران مسلسل چہکتے رہے تھے جبکہ علیزہ بمشکل اپنے حلق سے کھانا نیچے اتارتی رہی۔ ذوالقرنین کے سامنے اس طرح بیٹھ کر کھانا کھانا اس کیلئے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ اسے اس کی باتوں پر ہنسی بھی آرہی تھی اور ساتھ یہ خوف بھی تھا کہ اگر نانو کو یہ پتہ چل گیا کہ وہ شہلا کے گھر کے بجائے اس وقت کسی انجان شخص کے ساتھ بیٹھی لنچ کر رہی ہے تو وہ شاید قیامت ہی اٹھادیں گی۔ ذوالقرنین بار بار اسے مخاطب کر رہا تھا وہ نروس ہو رہی تھی۔ شاید اسے اس کا اندازہ بھی تھا، اس لیے وہ بار بار اس حوالے سے بھی مذاق میں تبصرے کر رہا تھا اور علیزہ کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
ایک گھنٹہ ریسٹورنٹ میں گزار کر وہ دونوں وہاں سے نکلی تھیں اور تب تک علیزہ روہانسی ہوچکی تھی۔ شہلا کے گھر جانے کے بجائے وہ اس کے ڈرائیور کے ساتھ واپس گھر آگئی۔