Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

نانو کو اس کے اس ایڈونچر کا پتہ نہیں چل سکا۔ اگلے چند دن وہ اس خدشہ سے ہولتی رہی کہ انہیں کسی نہ کسی ذریعے سے کہیں ذوالقرنین کے ساتھ کیے جانے والے اس لنچ کا پتا نہ چل جائے مگر نانو کو پتا نہیں چل سکا تھا۔ وہ ایک بار پھر نانو کو دھوکا دینے میں کامیاب رہی تھی اور اس کامیابی نے اسے غیرمحسوس طور پر خوش کیا تھا۔ نہ صرف وہ خوش تھی بلکہ اس کے اعتماد میں بھی کچھ اضافہ ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ چند دن بعد… ذوالقرنین کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے اس نے جب اس سے دوبارہ ملنے پر اصرار کیا تو وہ کوشش کے باوجود بھی انکار نہیں کرسکی۔
ان کی اگلی ملاقات فیروز سنز پر ہوئی تھی اور اس بار وہ اکیلی تھی۔ نانو سے اس نے کچھ کتابیں خریدنے کیلئے مارکیٹ جانے کا کہا اور فیروز سنز پہنچ کر اس نے ڈرائیور کو ایک گھنٹہ تک انتظار کرنے کیلئے کہا۔
ذوالقرنین اندر پہلے ہی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس دن وہ ایک گھنٹہ وہیں اندر کھڑے باتیں کرتے رہے۔
اگلی ملاقات امریکن سینٹر میں ہوئی۔ اس کے پاس امریکن سینٹر اور برٹش کونسل کی لائبریریز کی ممبر شپ تھی، اور پہلے بھی اکثر ان دونوں جگہوں پر جایا کرتی تھی۔ صرف یہ دو جگہیں ایسی تھیں جہاں جانے کی اسے بڑی آسانی سے اجازت مل جایا کرتی تھی۔ اب یہ دونوں جگہیں ان کیلئے ملاقات کا مقام بن چکی تھیں۔ علیزہ کو وہاں یہ خوف نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ذوالقرنین کے ساتھ دیکھے جانے پر نانو کو انفارم کردے گا کیونکہ وہ کوئی بھی بہانا بنا سکتی تھی… وہاں بہت سے لوگ آتے جاتے رہتے تھے اور کہا جاسکتا تھا کہ وہ بھی کسی سے رسمی سی گفتگو کر رہی تھی۔
فون پر ذوالقرنین سے ہونے والی گفتگو کا سلسلہ بھی طویل ہوتا جارہا تھا۔ وہ ذوالقرنین سے بات کرنے کیلئے رات دیر تک جاگتی رہتی اور پھر لاؤنج میں آکر اندھیرے میں بیٹھ کر اسے فون کرتی اور ہر روز رات کو وہ نانا اور نانو کے کمرے میں موجود ایکسٹینشن کے پلگ کو نکال دیتی اور پھر صبح سویرے جب نانا واک کیلئے نکل جاتے اور نانو نماز میں مصروف ہوتیں تو وہ ان کے کمرے میں جاکر دوبارہ اسے لگا آتی۔



عورت کی تعریف اسے زیرکرنے کیلئے مرد کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے اور ذوالقرنین اس ہتھیار کو بخوبی استعمال کرلیتا تھا۔ اس سے بات کر کے علیزہ کو یوں لگتا تھا جیسے وہ اس دنیا کی مخلوق نہ ہو۔ اس کا تعلق کسی دوسری دنیا سے ہو۔ اس دنیا سے جہاں سے ذوالقرنین تعلق رکھتا تھا۔ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ وہ کسی کیلئے کتنی اہم ہے۔ کوئی اس کے دیر سے آنے پر ناراض ہوسکتا ہے۔ علیزہ سکندر خود کو پہلی بار دریافت کر رہی تھی یا شاید زندگی کو پہلی بار دریافت کر رہی تھی۔
اس کیلئے ہر چیز جیسے مکمل طور پر بدل گئی تھی۔ ذوالقرنین جیسے ہر جگہ موجود رہنے لگا تھا۔ جہاں وہ نہ ہوتا وہاں اس کی آواز ہوتی، جہاں اس کی آواز نہ ہوتی وہاں اس کا خیال ہوتا جہاں اس کا خیال نہ ہوتا۔ وہاں… وہاں علیزہ سکندر کیلئے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہر بار فون رکھنے کے بعد وہ اگلے فون پر اس سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں سوچنا شروع کردیتی۔ اسے کیا کہنا تھا… ذوالقرنین کس بات کے جواب میں کیا کہے گا اس کے ذہن میں اس کے علاوہ کچھ نہیں رہتا تھا۔
ان دنوں پہلی بار اس نے اپنے ذہن میں اپنے ماں، باپ کے بارے میں سوچنا ختم کردیا تھا۔ ذوالقرنین کی محبت نے جیسے دوسری ہر محبت، ہر رشتہ کی جگہ لے لی تھی۔ اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے اپنے ماں، باپ کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ اپنا وقت ضائع کر رہی تھی۔ وہ عمر کو بھی مکمل طور پر فراموش کرچکی تھی۔
”آپ کا کیا خیال ہے اگلے الیکشن میں کون سی پارٹی کی حکومت آئے گی؟”
اسلام آباد میں ایک فیڈرل سیکرٹری کے گھر ہونے والی اس پارٹی میں عمر لئیق انکل کے ساتھ جس ٹیبل پر بیٹھا ہوا تھا، وہاں ان سروس اور ریٹائرڈ بیورو کریٹس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی اور ہونے والی گفتگو کا موضوع اگلے الیکشنز تھے۔ ملک میں مارشل لاء کے ایک لمبے عرصے کے بعد بننے والی پہلی جمہوری حکومت کو کچھ عرصہ پہلے برطرف کیا جاچکا تھا اور اب عبوری حکومت ملک چلا رہی تھی اور بیسویں صدی کے اس آخری عشرے میں جمہوریت کے اس پہلے تجربے کی ناکامی کے بعد جانے والی حکومت کے مختلف عہدیداروں کی طرف سے کی جانے والی حماقتوں پر کھل کر ہنسا جارہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ آنے والی حکومت کے بارے میں اندازے لگائے جارہے تھے۔
”ایک بات تو طے ہے کہ اگلے الیکشن میں یہ پارٹی تو برسر اقتدار نہیں آسکتی جس کی حکومت برطرف کی گئی ہے۔”
عمر کوک کے سپ لیتے ہوئے خاموشی سے گفتگو میں حصہ لیے بغیر صرف ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ ایک ان سروس بیورو کریٹ کے اس جملے پر میز کے اطراف بیٹھے ہوئے تمام لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔
”میں، میں تو چاہتا ہوں کہ دوسری پارٹی کے بجائے تیسری پارٹی آجائے۔” لئیق انکل کے اس معنی خیز جملے پر اس بار مسکراہٹیں ہلکے پھلکے قہقہوں میں تبدیل ہوگئیں۔



”آپ تو یہی چاہیں گے لئیق صاحب! آخر آپ کا پورا سسرال تیسری پارٹی میں ہے۔”
زمان شاہد نامی ایک سینئر بیورو کریٹ نے لئیق انکل کے سسرال کے فوجی بیک گراؤنڈ کی طرف اشارہ کیا۔ اس جملے پر ایک بار پھر قہقہے ابھرے۔
”یار! بہت عیش کروا چکے ہیں تمہارے سسرال والے۔ پچھلے دس بارہ سالوں میں تمہیں… اب ہم جیسے لوگوں کے سسرال والوں کو بھی ہماری خدمت کا موقع دو۔”
حسین شفیع کی بیوی کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے تھا اور ان کو توقع تھی کہ اس بار اگر ان کی بیوی کے معروف گھرانے کی پارٹی الیکشن جیت گئی تو ایک عدد صوبائی وزارت ان کی بیوی کے باپ یا بھائی کی جیب میں تھی۔
”تیسری پارٹی ہمیشہ سے ہی حکومت میں شامل رہی ہے۔ ڈائریکٹ نہیں تو ان ڈائریکٹ طریقے سے مگر وہ ہمیشہ حکومت کے آگے، پیچھے ، اوپر نیچے رہتے ہیں اور اگلی حکومت کے ساتھ بھی یہی ہوگا، کیوں جنرل صاحب؟”
راجہ سعید نے اس بار میز پر بیٹھے ہوئے ایک ریٹائرڈ جنرل کو خاصی شوخی سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”یہ آگے، پیچھے اوپر، نیچے آپ نے خوب کہا مگر دائیں بائیں کو کیوں بھول گئے۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!