Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

ریٹائرڈ جنرل جیسے ان کے تبصرے پر محظوظ ہوا۔
میز کے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں نے ایک ہلکا فہمائشی قہقہہ لگایا۔
”بھئی! تم لوگ مجبور کردیتے ہوئے آگے، پیچھے اور اوپر، نیچے رہنے پر۔” جنرل نے اپنا پائپ سلگاتے ہوئے کہا۔
”قریشی صاحب! یہ نہ کہیں … یہ کہیں کہ اقتدار کا نشہ ایسا نشہ ہے کہ ایک بار لگ جائے… پھر چھوٹتا نہیں۔”
شاہد زمان نے جنرل کو مخاطب کیا۔
”چلیں… آپ یہی سمجھ لیں۔ کچھ نشہ آپ کو ہے… کچھ ہمیں… وہ کیا کہتے ہیں… ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔” جنرل قریشی نے اس بار اس بیورو کریٹ پر جوابی جملہ کیا تھا۔
”نہیں! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا۔
birds of a feather flock together (کندہم جنس، باہم جنس پرواز) ٹیبل پر بیٹھے ہوئے واحد سیاسی رہنما نے اپنے سامنے پڑا ہوا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔
”اجمل صاحب! آپ یہ نہ بھولیں۔ آپ بھی اسی flock (ٹولے) کا حصہ ہیں۔” جنرل قریشی نے اس بار اجمل درانی سے کچھ طنزیہ انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے! سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔” اجمل درانی نے بڑے مؤدب مگر جتانے والے انداز میں سرجھکاتے ہوئے گلاس لہرایا۔
”مگر ہمیں تو فی الحال اگلے کچھ عرصہ کیلئے اس ٹولے سے باہر ہی سمجھیں۔”
”اچھا…! ہماری طرح آپ کو بھی یقین ہے کہ اگلے الیکشن میں آپ کی پارٹی اقتدار میں نہیں آرہی۔” لئیق انکل نے اجمل درانی سے کہا۔



”بھی، اتنے احمق تو ہم نہیں ہیں۔ ہمیں ہی دوبارہ لے کر آنا ہوتا تو ہمارا تختہ کیوں پلٹتے اس طرح… مگر چلو… کچھ دیر باہر بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اگلے کھلاڑی کس طرح پٹتے ہیں۔” اجمل درانی کے لہجے میں طنز تھا۔
”یہ تو کھلاڑیوں پر ہے کہ وہ پٹنے کیلئے آتے ہیں یا پیٹنے کیلئے۔” جنرل قریشی نے اس بار بھی طنزیہ مسکراہٹ سے کہا۔
”ارے جناب! پیٹنا کس کو ہے… آپ کو… یا ان کو؟” اجمل درانی نے بڑے معنی خیز انداز میں پہلے جنرل قریشی اور پھر شاہد زمان کی طرف اشارہ کیا۔
”آپ بتایئے آپ کسے پیٹنا پسند کریں گے؟” جنرل قریشی نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”آپ تو ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے انتخاب کا حق واقعی ہمیں دے رہے ہوں۔ بھئی تم لوگوں میں سے جس کا داؤ لگے گا… وہی پیٹے گا۔ ملٹری بیورو کریسی کی باری آئے گی تو وہ پیٹے گی اور سول بیورو کریسی کا بس چلے گا تو وہ بھی ویسی ہی تواضع کرے گی ہم ”عوامی نمائندوں” کی۔”
اجمل درانی نے مشروب کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”ہاں! جی آپ جیسے ”عوامی نمائندے” ہی تو کسی بھی قوم کا تیا پانچہ کردیتے ہیں۔ آپ جیسے مظلوموں کا کیا کہنا؟”
جنرل قریشی کی بات پر ٹیبل کے گرد بیٹھے ہوئے دوسرے سامعین نے ایک بار پھر فہمائشی قہقہہ لگایا۔
”جنرل صاحب…! جنرل صاحب…! میں کچھ کہوں گا تو آپ کے ماتھے پر بھی خاصا پسینہ آجائے گا۔ قوم کا تیا پانچہ کرنے والوں میں بڑے بڑے نامور لوگ شامل ہیں۔” اجمل درانی کا لہجہ اس بار بھی طنزیہ ہی تھا۔
”ارے بھئی! چھوڑیں۔ کچھ اور باتیں کریں۔ آپ لوگ بھی کن باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔” ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان کے میزبان فیڈرل سیکرٹری نے شاید ہونے والی گفتگو سن لی تھی، اس لیے وہ قریب آگیا تھا۔



”اس بار آپ نے ڈرنکس میں کوئی چوائس نہیں چھوڑی۔ وہی پیناپڑرہا ہے۔ جو ناپسند ہے عباس صاحب! آپ تو خاصے ”دلیر” قسم کے میزبان تھے۔ آپ کی ڈرنکس کو کیا ہوگیا؟” شاہد زمان نے ایک معنی خیز بات کی۔
”ہم آج بھی خاصے دلیر قسم کے ہی میزبان ہیں بلکہ یہ کہیے کہ ”شوقین” میزبان ہیں۔ بس کچھ مجبور ہیں۔ خطرہ مول نہیں لیا کیونکہ ابھی الیکشن ہونے والے ہیں۔ کوئی پتا نہیں کون سی پارٹی ٹیک اوور کرتی ہے۔ اگلی پوسٹنگ سے پہلے کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ آپ فکر نہ کریں، اگلی پارٹی میں سارے شکوے ختم کردوں گا۔”
عباس حاکم نے شاہد زمان کا کندھا تھپکتے ہوئے کہا۔
”ہمارے ہوتے ہوئے ڈرنے کی کیا ضرورت تھی عباس صاحب…؟ جو چاہے پیش کرتے۔” جنرل قریشی نے پائپ کا کش لیتے ہوئے کہا۔
”آپ کے ہوتے ہوئے ہی تو کچھ پیش کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ آپ خود ”کھا پی” لیتے ہیں مگر دو سروں کو نہ ”کھانے” دیتے ہیں اور نہ پینے۔” اجمل درانی نے عباس حاکم کے کچھ کہنے سے پہلے برجستہ انداز میں کہا۔ ٹیبل پر بے اختیار ایک قہقہہ گونجا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!