Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”ہم بڑے گھروں میں رہتے ہیں۔ زندگی میں ان آسائشات سے محظوظ ہوتے ہیں جو اس ملک کی ٩٨ فیصد آبادی کے پاس نہیں ہے… شاندار لباس سے لے کر بہترین اداروں میں ملنے والی تعلیم تک… کوئی بھی چیز ہماری رسائی سے باہر نہیں ہوئی، لیکن جب سوال رشتوں کا آتا ہے تو ہمارے چاروں طرف ایسی تاریکی چھا جاتی ہے جس میں کچھ بھی ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے… لیکن ہمارے لئے اس زندگی سے باہر بھی کچھ نہیں ہے۔ ہمارا مقدر یہی ہے کہ ہم ان ہی رشتوں کے ساتھ رہیں۔ جو ہمیں مصنوعی لگتے ہیں۔” وہ بول رہا تھا۔
”دنیا کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا جسے کھول کر ہم اس سے باہر نکل جائیں۔” اس نے علیزہ کا جملہ دہرایا علیزہ نے سر جھکا لیا۔ ”دنیا کی صرف کھڑکیاں ہوتی ہیں جن سے ہم باہر جھانک سکتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ کھڑکیاں دنیا سے باہر کے منظر دکھاتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ اپنے اندر کے منظر دکھانے لگتی ہیں۔ مگر رہائی اور فرار میں کبھی مدد نہیں دیتیں۔”
وہ جیسے فلسفہ بول رہا تھا۔ علیزہ کو حیرت ہوئی اس نے عمر کو اس طرح کی باتیں پہلے کبھی کرتے نہیں سنا تھا۔
”زندگی ذوالقرنین سے شروع ہوتی ہے نہ اس پر ختم ہوتی ہے… ذوالقرنین تمہارے لئے وہ تجربہ ہے جس پر کبھی تم بہت ہنسو گی… یہ سوچ کر کہ کیا تم اس شخص کے لئے خودکشی کر رہی تھیں۔”



”زندگی میں انسان کو ایک عادت ضرور سیکھ لینی چاہئے جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اسے بھول جانے کی عادت۔ یہ عادت بہت سی تکلیفوں سے بچا دیتی ہے۔” وہ اب لا پروائی سے کہہ رہا تھا۔
”انسان چیزیں نہیں ہوتے آپ نے کسی سے محبت کی ہے یا نہیں… لیکن میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ آپ کو کسی نے میری طرح ریجیکٹ نہیں کیا ہو گا… اس طرح کسی نے آپ کے احساسات کا مذاق نہیں اڑایا ہو گا۔ جیسا ذوالقرنین نے میرے ساتھ کیا۔”
عمر اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”یہ غلط فہمی دور کر لو علیزہ… مجھے کس کس طرح اور کتنی دفعہ ریجیکٹ کیا گیا ہے۔ اس کا اندازہ تم نہیں لگا سکتی کیونکہ اس کا اندازہ خود مجھے بھی نہیں ہے۔ ریجیکشن انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ کبھی ہم کسی کو ریجیکٹ کرتے ہیں پھر کوئی ہمیں ریجیکیٹ کر دیتا ہے۔ اس چیز کے بارے میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے اسے تو بہت نارمل لینا چاہئے۔ تمہیں کسی دن بتاؤں گا کہ مجھے کتنی دفعہ ریجیکٹ کیا گیا۔” وہ اب بالکل نان سیریس نظر آرہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اب وہ علیزہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے محظوظ ہو رہا ہو۔



”تم اتنی خوبصورت ہو کہ آج سے پانچ سال بعد ذوالقرنین اور میرے جیسے بہت سے تمہارے لئے لائن میں لگے ہوں گے، اور تب تم کہو گی، نہیں اس قسم کے لوگ نہیں چاہئیں مجھے۔ ان سے بہتر چیز ہونی چاہئے۔ جیسے دکان پر جوتا پسند کرتے ہیں نابالکل ویسے۔” وہ کس کا مذاق اڑا رہا تھا،علیزہ اندازہ نہیں کر سکی۔
”اور علیزہ سکندر کا شوہر ایک بڑا خوش قسمت شخص ہو گا۔”
اس نے بچوں کی طرح سر اٹھا کر دیکھا۔ عمر کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”عمر جہانگیرکی بیوی بھی ایک بہت خوش قسمت لڑکی ہو گی۔” اس نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”نہیں عمر جہانگیر کی کوئی بیوی کبھی بھی نہیں ہوگی کیونکہ مجھے شادی میں سرے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” عمر نے لاپروائی سے کہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!