باب 33
”ہم نے معدہ واش کر دیا ہے ۔ وہ اب ٹھیک ہے۔ دس پندرہ منٹ بعد اسے کمرے میں شفٹ کر دیں گے۔ تب آپ اس سے مل سکتے ہیں۔”
ڈاکٹر نے انہیں اطلاع دی۔ نانو اور عمر نے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا نانو کے چہرے پر اطمینان ابھر آیا جبکہ عمر پہلے ہی کی طرح سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
علیزہ کو ہاسپٹل لے جاتے ہوئے عمر نے گاڑی میں نانو کو ذوالقرنین کے بارے میں بتا دیا تھا۔ علیزہ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا کاغذ جو علیزہ کے بیڈ کے پاس جاتے ہی عمر کو نظر آیا تھا۔ اس نے نانو کو دکھا دیا جس میں علیزہ نے اپنی خودکشی کے بارے میں لکھا تھا۔
نانو خط ہاتھ میں لئے پورا راستہ سکتے کے عالم میں بیٹھیں رہیں۔ ان کے فیملی ڈاکٹر نے ہاسپٹل پہنچنے پر فوری طور پر علیزہ کے کیس کو ڈیل کیا تھا۔ فیملی ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے اس نے اس کیس کو پولیس میں بھی رپورٹ نہیں کیا۔
”اس نے کیا کھایا تھا؟” عمر نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
”سلیپنگ پلز تھیں، آپ لوگ اسے بہت جلدی لے آئے ابھی پوری طرح حل نہیں ہو سکی تھیں اور اس پر زیادہ اثر اس لئے بھی نہیں ہوا کہ وہ یہ گولیاں لینے کی عادی لگتی ہے ورنہ جتنی تعداد میں اس نے یہ گولیاں لی ہیں اس کی حالت خاصی خراب ہونی چاہئے تھی۔” ڈاکٹر آہستہ آہستہ بتا رہا تھا۔ ‘
”لیکن علیزہ نے اس طرح کیوں کیا ہے، وہ تو بہت سمجھ دار بچی ہے… پھر اس طرح ۔” ڈاکٹر نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر جواب طلب نظروں سے نانو کو دیکھا۔
”کالج میں کچھ فرینڈز سے اس کا جھگڑا ہو گیا اور شاید ڈپریشن میں یا غصے میں اس نے یہ کیا ہے۔” عمر نے ڈاکٹر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”گرینی کیا علیزہ سلیپنگ پلز لیتی ہے؟”
”یہ گولیاں تو نہیں کوئی اور دوا لیتی رہی ہے مگر وہ بھی صرف تب جب سائیکاٹرسٹ کے ساتھ سیشنز ہوتے تھے۔”
”تو پھر اس کے پاس یہ Pills کہاں سے آئیں؟”
”میں تو خود حیران ہوں۔”
”کیا گرینڈ پا لیتے ہیں؟”
”نہیں وہ تو نہیں لیتے ہو سکتا ہے اس نے کہیں سے خرید لی ہوں۔” نانو نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
”کب خریدی ہیں اس نے، یہی تو سمجھ نہیں پا رہا۔ پارک سے تو میں اس کو سیدھا گھر لایا ہوں اور اس کے بعد وہ گھر سے باہر نہیں گئی پھر اس کے پاس یہ Pillsکہاں سے آگئیں۔ آپ کہہ رہی ہیں کہ گرینڈ پا بھی نہیں لیتے… پھر۔”
عمر الجھے ہوئے انداز میں کہتے کہتے یک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”کیا ہوا؟” نانو نے کچھ حیران ہو کر اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھا۔
”کچھ نہیں؟” وہ یک دم بہت پریشان نظر آنے لگا تھا۔
٭٭٭