اگلے چند دن بھی عمر اور علیزہ کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اپنے تحریری امتحان کے رزلٹ آنے کے بعد وہ اسلام آباد چلا گیا۔ وہاں سے اس کی واپسی دو ہفتے کے بعد ہوئی۔
”آپ نے ذوالقرنین کے سلسلے میں اس سے بات کی؟”
رات کے کھانے پر ڈائننگ ٹیبل پر علیزہ سے اس کا سامنا ہوا۔ رسمی سلام دعا کے بعد وہ سر جھکائے خاموشی سے کھانا کھاتی رہی اور پھر کھانے سے فارغ ہو کر سب سے پہلے ٹیبل سے اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد عمر نے نانا سے پوچھا۔
”وہ اس سلسلے میں کوئی بات کرنے کے لئے تیار ہی نہیں، میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر اس نے دھمکی دی کہ اگر میں نے دوبارہ ذوالقرنین کے بارے میں کچھ کہا تو وہ خودکشی کرلے گی یا پھر گھر سے بھاگ جائے گی، میں تو خوفزدہ ہو گئی، علیزہ کبھی بھی اتنے باغیانہ انداز میں بات نہیں کرتی تھی۔ مگر اب تو وہ بالکل بدل گئی ہے اس کا دل چاہے کالج جاتی ہے دل چاہے توگھر سے باہر نہیں نکلتی۔ دو دن پہلے جا کر سارے بال کٹوا آئی، پچھلے ایک ہفتے میں تین بار شہلا آچکی ہے۔ اس سے بات کرنے کی بجائے اسے دیکھتے ہی کمرے میں چلی جاتی ہے وہ دروازہ بجاتی رہی ، اس نے دروازہ نہیں کھولا وہ روہانسی ہو کر واپس گئی۔ باقی سب کچھ تو چھوڑو کر سٹی کی ساری چیزیں اٹھا کر کمرے سے باہر پھینک دیں۔ وہ آگے پیچھے پھرتی رہتی ہے مگر مجال ہے۔ علیزہ اسے ہاتھ بھی لگا جائے گھر میں ہو تو سارا دن بلند آواز میں اسٹیریو آن رکھتی ہے۔ پہلے کبھی اس نے یہ بھی نہیں کیا، دل چاہے تو کھانا کھائے گی ورنہ دو چمچ لے کراٹھ جاتی ہے اور ان سے بات کروں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہی ہے کرنے دوں میں کوئی اعتراض نہ کروں۔ مگر اس طرح سب کچھ کتنے دن اور کیسے چلے گا۔”
عمر خاموشی سے نانو کی شکایتیں سنتا رہا، جبکہ نانا بڑی بے نیازی سے کھانا کھانے میں مصروف رہے۔
”گرینڈ پا نے ٹھیک کہا۔ وہ جو کر رہی ہے اسے کرنے دیں۔ آہستہ آہستہ وہ خود ہی نارمل ہو جائے گی۔” عمر نے پانی پیتے ہوئے کہا۔
”میں نے ان سے کہا۔ اسے سائیکاٹرسٹ کو دکھائیں، دوبارہ سے سیشن کروائیں اس کا ڈپریشن تو کم ہو مگر یہ اس پر بھی تیار نہیں۔” نانو کو ایک بار پھر سے شکایت ہو رہی تھی۔
”میں اس کی مرضی کے بغیر اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس کیسے لے جا سکتا ہوں اور اس نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اب کسی سائیکاٹرسٹ کے پاس نہیں جائے گی کیونکہ وہ پاگل نہیں ہے اور میں اسے مجبور نہیں کر سکتا نہ ہی کرنا چاہتا ہوں۔” نانا نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
”میری بات کرنے کا نتیجہ تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، مجھے تو پہلے ہی شرمندگی ہے نہ میں ذوالقرنین سے بات کرتا اور نہ یہ سب ہوتا۔ وہ خوش تھی خوش رہتی۔” عمر کو واقعی پچھتاوا تھا۔
”پھر بھی تم اس سے بات کرو، اس طرح اس کو اکیلا تو نہیں چھوڑا جا سکتا پرسوں سکندر کا فون آیا تھا، اس سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ سات آٹھ دن پہلے ثمینہ کا فون آیا تھا، تب بھی اس نے یہی کیا میں نے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے صاف کہہ دیا میرے کوئی ماں باپ نہیں ہیں، نہ ہی میں کسی سے فون پر بات کرنا چاہتی ہوں مجھے کوئی ٹیلی فونک رشتہ نہیں چاہئے۔” نانو نے رنجیدہ لہجے میں کہا۔
”میں نے اتنے سال اس کی تربیت پر لگا دیے اور اب یہ سب کر رہی ہے، میری ساری محنت اس نے ضائع کر دی۔”
”گرینی! آپ نے اس کی تربیت نہیں کی، آپ نے اس کی شخصیت بننے ہی نہیں دی۔” نانو نے عمر کی بات کاٹ دیں۔
”میں نے اسے ہر چیز دی۔”
”تربیت سہولتوں اور چیزوں کو نہیں کہتے۔” اس نے مستحکم آواز میں کہا۔ ”آپ نے اس کو صرف پالا ، پالنے میں اور تربیت کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ آپ نے اس کی تربیت کی ہوتی تو وہ ذوالقرنین کے ساتھ افیئر نہ چلاتی یا ایسی غلطی کر بھی لیتی تو اس طرح خودکشی کی کوشش نہ کرتی۔ میں نہیں مانتا کہ اس کو ذوالقرنین سے محبت ہوئی ہے… ذوالقرنین کی جگہ آ ج کوئی دوسرا بندہ آکر وہی سب کچھ اس سے کہنا شروع کر دے جو ذوالقرنین کہتا تھا وہ اس کے ساتھ بھی اسی طرح آنکھیں بند کرکے چل پڑے گی… اس کو جہاں سے توجہ اور محبت ملے گی ، وہ وہاں چلے جائے گی۔ کیونکہ اس کو یہ چیزیں آپ سے یا اپنے پیرنٹس سے نہیں ملی ہیں۔
”اس خاندان میں اور بھی تو بہت سے اس جیسے بچے ہیں جن کے پیرنٹس میں علیحدگی ہو چکی ہے کسی نے بھی ویسے پرابلمز کھڑے نہیں کئے جیسے علیزہ نے کئے ہیں۔”
”اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ باقی سارے بچے علیحدگی کی صورت میں پیرنٹس میں سے کسی ایک کے پاس رہے ہیں اور دوسرے سے ملتے رہے ہیں، علیزہ کی طرح کسی کو نانا، نانو کے پاس نہیں چھوڑا گیا۔”
”تم بھی تو ہو عمر! تم تو بورڈنگ میں رہے ہو، جہانگیر نے مستقل تمہیں اپنے پاس نہیں رکھا اور زارا سے بھی ملنے نہیں دیا پھر بھی تم نے کسی کے لئے کوئی پرابلمز کھڑے نہیں کئے۔” عمر کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری۔
”میں کتنا نارمل ہوں، یہ میں ہی جانتا ہوں۔ مرد کی زندگی کا دائرہ عورت کی زندگی کے دائرے سے مختلف ہوتا ہے۔ میری ساری زندگی گھر کے باہر گزرتی ہے، میرے پاس بہت سی مصروفیات ہیں، بہت سی تفریحات ہیں پھر ایک کیرئیر ہے اور پھر میں چھبیس سال کا ہوں۔ مجھے اس ٹین ایجر سے تو کمپیئر نہیں کر سکتے جس کی زندگی کے دائرہ میں ایک دوست، دو گرینڈ پیرنٹس ایک بلی اور چند خواب ہوں۔”
”اس کے پیرنٹس کی سیپریشن کی ذمہ دار میں نہیں ہوں، اگر اس نے کوئی دکھ اٹھایا ہے تو میری وجہ سے نہیں کیا، میں اسے جودے سکتی تھی، میں نے دیا اب چوبیس گھنٹے تو میں اس کو گود میں لے کر نہیں بیٹھ سکتی اور پھر اب وہ بچی نہیں ہے۔ میچور ہو رہی ہے۔ اپنی سیچویشن اور پرابلمز کو سمجھے حالات کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا سیکھے۔”
”تیراکی سکھائے بغیر آپ کسی کو انگلش چینل کراس کرنے کے لئے سمندر میں دھکیل دیں گی تو اس کے ساتھ وہی ہو گا جو علیزہ کے ساتھ ہو رہا ہے اس پر ترس کھانے کے بجائے اس کے ساتھ وقت گزاریں۔”
”وہ پاس بیٹھنے کو تیار تو ہو۔” عمر کھانا ختم کرچکا تھا۔
”میں اس سے بات کرتا ہوں، لیکن میرا خیال ہے اس کو کچھ عرصہ کے لئے لے جائیں۔”
”کہاں لے جاؤں؟”
”کہیں بھی کسی ہل اسٹیشن یا اس سے پوچھ لیں، جہاں وہ جانا چاہے۔” وہ ٹیبل سے اٹھ گیا۔
٭٭٭