Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میں نے اگر ایمبیسی میں فائلز اور رپورٹس کی کاپیز کسی کوپہنچائی ہیں تو پاپا کے کہنے پر کی ہیں۔ آپ کیا کر سکتے ہیں اگر آپ کا باس آپ کے پاس موجود فائلز کسی کو دینے کے لئے کہے اور وہ باس آپ کا باپ بھی ہو جس نے سارے رولز اور ریگولیشنز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو وہاں پوسٹ ہی اسی لئے کروایا ہو۔۔۔”
”عمر! موبائل پر اس طرح کی باتیں مت کرو… ہو سکتا ہے کہیں یہ سب سنا جا رہا ہو۔” ایاز حیدر نے اسے ٹوکا۔ ”I don’t Care(مجھے پروا نہیں سنا جا رہا ہے تو سنا جائے۔) وہ میرا سروس ریکارڈ خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور میں ان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہوں پہلے بھی انہوں نے مجھے استعمال کیا اور اب پھر وہ یہی کرنا چاہ رہے ہیں۔”
”تمہیں خواہ مخواہ غلط فہمی ہو گئی ہے۔ وہ تمہیں کیوں استعمال کرے گا؟”
”وہ مجھے استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ اب گورنمنٹ جانے والی ہے اور انہوں نے اس سیاست دان کو میرے بارے میں کچھ بھی شائع کرنے سے نہیں روکا کیونکہ جب چند ماہ بعد گورنمنٹ جائے گی تو وہ عبوری حکومت میں میرے کیس کو استعمال کرکے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ اور ان کا بیٹا ان بیوروکریٹس میں سے ہیں جو اس حکومت کے زیر عتاب ہیں بعد میں اگلی گورنمنٹ سے وہ پھر اچھی پوسٹنگ لے جائیں گے مگر میرا سروس ریکارڈ تو خراب ہو جائے گا۔”
”عمر، جہانگیر ایسا کچھ کرنا نہیں چاہتا۔” اس بار ایاز حیدر کا لہجہ پہلے سے محتاط تھا۔
”Oh really(واقعی) تو پھر ان سے کہیں کہ میں اب اس منسٹر کی بیٹی سے شادی پر تیا ر ہوں، وہ جب چاہیں میری شادی کر سکتے ہیں۔”
دوسری طرف سے ایاز حیدر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”آپ خاموش کیوں ہو گئے ہیں۔”عمر نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”تم احمقانہ بات کر رہے ہو اور احمقانہ باتوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔”
”انکل! میں کوئی بچہ نہیں ہوں کہ ایسی چالوں کو نہ سمجھوں ، پاپا سے کہیں اب جوڑیں رشتہ داری اس منسٹر سے۔ اب وہ کسی قیمت پر میری شادی اس شخص کی بیٹی سے نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ چند ماہ تک گورنمنٹ چلی جائے گی اور اگلی گورنمنٹ پچھلی گورنمنٹ کے تمام رشتہ دار بیوروکریٹس پر انکوائریز لائے گی او ایس ڈی بنا دے گی یا پھر وہ پوسٹنگز دے گی جو بے کار ہیں۔”
”تم امکانات کی بات کر رہے ہو۔” ایاز حیدر کا لہجہ بہت ٹھنڈا تھا۔



”میں حقائق کی بات کر رہا ہوں اگر یہ امکان ہے تو پاپا اسلام آباد میں جم کر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگلی پوسٹنگ لینے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں میڈیکل لیو کو کیوں بڑھایا ہے انہوں نے جبکہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور آپ انگلینڈ سے اسلام آباد کیوں آگئے ہیں۔۔۔”
”عمر میں تمہارے اور جہانگیر کے مسئلے کو حل کروانا چاہتا ہوں، میں واقعی ایسا چاہتا ہوں۔ تم یہاں آؤ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔” ایاز حیدر نے بہت پر سکون انداز میں بات کا موضوع تبدیل کر دیا۔
”نہیں میں نے اب کوئی آمنا سامنا نہیں کرنا اگر وہ سب کچھ پریس میں لے گئے ہیں تو میں بھی سب کچھ پریس میں لے جاؤں گا اور میرے پاس ان کے بارے میں جو کچھ ہے۔ وہ ایک بار پریس میں آگیا تو کوئی گورنمنٹ بھی انہیں سروس میں نہیں رکھ سکے گی۔ وہ اپنی باقی زندگی جیل میں گزاریں گے یا کسی دوسرے ملک میں فرار ہو کر ۔”
”تم جانتے ہو اس سے کیا ہوگا۔ ہماری پوری فیملیSuffer کرے گی۔ ریپوٹیشن خراب ہو جائے گی ہماری، جہانگیر کا کیرئیر ختم ہو گا،تو تمہارا بھی ختم ہو جائے گا۔” ایاز حیدر پہلی بار بلند آواز میں بولے۔
”مجھے کسی چیز کی پروا نہیں ہے نہ فیملی کی نہ اپنے کیریئر کی۔ اگر کچھ ختم ہو رہا ہے تو ختم ہو جائے بلکہ سب کچھ ختم ہو جانے دیں۔”
”عمر! تم جذباتی ہو رہے ہو، ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچو، اگر پریس میں تمہارے بارے میں کچھ آبھی گیا ہے تو اس کو کور اپ کیا جاسکتا ہے۔ تم اکیلے آفیسر نہیں ہو اور بھی آفیسرز کا نام آیا ہے۔ ان کی فیمیلز بھی ہاتھ پاؤں ماریں گی۔ ہم کسی نہ کسی طرح انکوائری کو Delayکروالیں گے۔ چند ماہ تک ویسے ہی سیاسی سیٹ اپ تبدیل ہونے والا ہے۔ اک بار وہ منسٹر وہاں سے ہٹ گیا تو کون دوبارہ انکوائری شروع کروائے گا پھر اگراس نے جلدی انکوائری کروانا بھی چاہی تو ہم دیکھ لیں گے کہ انکوائری بورڈ میں سے کون سے ممبرز ہیں ان کے ساتھ ڈیل کی جا سکتی ہے۔”
”لیکن میرے سروس ریکارڈ میں یہ سب کچھ آجائے گا۔”
”اس کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔”
”تو پھر ٹھیک ہے جب پاپا کے بارے میں پریس کچھ شائع کرے تو آپ بالکل اسی طریقے سے سارے معاملے کو ہینڈل کریں، جس طرح آپ میرے معاملے کو ہینڈل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔” وہ اب بھی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”انہوں نے میرے ساتھ جو کیا ہے میں بھی ان کے ساتھ وہی کروں گا… کم از کم اب وہ مجھے استعمال کرکے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔”



”میں نے تمہیں بتایا ہے کہ جہانگیر نے یہ سب نہیں کروایا۔”
”مگر انہوں نے یہ سب ہونے سے روکا بھی نہیں۔ انکل !آپ اپنے بیٹے کے خلاف ایسی کوئی رپورٹ پریس تک آنے دیتے؟ خاص طور پر تب جب وہ آپ کے کہنے پر ہی سب کچھ کرتا رہا ہو۔”
ایاز حیدر اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔
”کوئی اپنے گھر کے کتے کے ساتھ بھی وہ نہیں کرتا جو میرے باپ نے میرے ساتھ کیا ہے۔ مجھے پوری طرح دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ میرے بارے میں جو الزامات آئے ہیں۔ ان کے بعد میں تو کسی کو منہ بھی نہیں دکھا سکتا میں صرف اس گندگی کی وجہ سے فارن سروس چھوڑ کر آیا تھا کہ نہ میں وہاں ہوں گا نہ مجھے اس طرح کے کام کرنا پڑیں گے اور پاپا مجھے یہاں بھی رہنے نہیں دے رہے، اگر وہ رپورٹ اس شخص نے پریس تک پہنچائی ہے تب بھی کیوں نہیں انہوں نے روکا اسے؟ مگر جہاں جہانگیر معاذ کی اپنی ذات آجائے وہاں تو انہیں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی اگر یہ میرے ساتھ یہ سب کچھ کریں گے تو پھر میں بھی ان کا لحاظ نہیں کروں گا۔”
”Enough is enough. Now I’ ll pay him in the same coin.(اب میں انہیں ان ہی کی زبان میں جواب دوں گا)” اس نے فون بند کر دیا۔
ایاز حیدر نے پریشانی کے عالم میں اس کا نمبر دوبارہ ملنا شروع کیا۔ موبائل آف کر دیا گیا تھا۔ ایک گہری سانس لے کر انہوں نے جہانگیر معاذ کا نمبر ملانا شروع کر دیا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!