”نیوز پیپرز میں عمر کے بار ے میں کوئی خبر ہے؟”
”ہاں۔” نانو نے مزید کچھ کہے بغیر وہ صفحہ اس کی طرف بڑھا دیا۔
”عمر نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟” وہ جیسے حیرت سے چیخ اٹھی۔ ” مجھے یقین نہیں آرہا کہ عمر بھی یہ سب کر سکتا ہے۔” خبر پڑھ کر اس کے چہرے پر بے یقینی ابھر آئی تھی۔
رات کو عمر کے آنے تک وہ دونوں فکر مندی کے عالم میں وہاں بیٹھی اسی کے بارے میں بات کرتی رہیں۔ مگر جب وہ آیا تو اس کے چہرے کے تاثرات نے ان دونوں کو حیران کیا۔
خلاف توقع وہ بہت پر سکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ کھانے کی میز پر وہ نانو سے مختلف ڈشز کو ڈسکس کرتا رہا۔ علیزہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھتی رہی وہ ہمیشہ کی طرح بڑے اطمینان سے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے تھا۔ اس کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کسی قسم کی مشکل یا پریشانی سے دوچار تھا۔
کھانے کے بعد وہ تینوں کافی پینے لاؤنج میں بیٹھ گئے اور تب نانو نے خود بات شروع کی۔
”تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟”
”آپ کے بیٹے کے لئے کیا” اس نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا۔
”تمہیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔”
”یہاں اس وقت کافی کے سپ لیتے ہوئے یہ مشورہ دینا بہت آسان ہے گرینی! مگر جب آپ ٹی وی لاؤنج کے بجائے ایمبیسی کے آفس میں بیٹھے ہوں اور آپ کا باس جو آپ کا باپ بھی ہو وہ آپ سے یہ کہے کہ اس فائل کی ایک کاپی کسی ایسے شخص کو دے دو جو سیکیورٹی رسک ہو تو آپ انکار نہیں کر سکتے۔ آپ کس طرح اعتراض کر سکتے ہیں یہ کہیں گے کہ میں نہیں دوں گا یا اپنی حب الوطنی کے بارے میں کوئی تقریر شروع کر دیں گے۔ ایسا کرنے کے بعد آپ اس آفس میں کتنی دیر اور دن بیٹھ سکتے ہیں جہاں کے چپراسی سے لے کر ایمبیسیڈر تک سب ایک جیسے ہوں۔”
”جہانگیر کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔” نانو نے افسردگی سے کہا۔
”یہ جملہ آپ نے پچیس سال دیر سے کہا پچیس سال پہلے آپ اپنے بیٹے کو یہ بات کہہ دیتیں تو شاید وہ چند لمحے سوچتا کہ زندگی میں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں مگر اب پچیس سال بعد اس کے لئے یہ ایک بے معنی جملہ ہے ان فائلز کے بدلے میرے باپ کے پاس اتنے ڈالرز آگئے ہیں کہ ان سے خریدی جانے والی چیزیں کسی بھی رشتے سے زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔”
علیزہ کو اندازہ نہیں ہوا کہ اس کی باتیں زیادہ تلخ تھیں یا وہ کافی جو وہ اپنے اندر انڈیل رہی تھی۔
”اب کیا ہو گا؟” نانو نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”پتا نہیں۔” عمر نے کندھے اچکائے۔
”بس میرے پاس پاپا کے خلاف جو بھی پیپرز ہیں، میں بھی انہیں پریس کے ذریعے سامنے لا رہا ہوں… پاپا نے مجھے ڈبونے کی کوشش کی ہے۔ میں انہیں ڈبونے کی کوشش کروں گا۔”
اس کے لہجے میں عجیب سرد مہری تھی۔
ٹی وی پر نو بجے کا نیوز بلیٹن شروع ہو چکا تھا۔ وہ اب کافی پینے کے ساتھ خبروں کی طرف متوجہ تھا۔
”اور تمہارا کیا ہو گا؟” نانو اس کے لئے فکر مند تھیں۔
”میرا ؟” وہ ہنسا ”کچھ بھی نہیں چند ہفتے یا مہینے معطل رہوں گا پھر دوبارہ پوسٹنگ مل جائے گی۔ البتہ ریکارڈ خراب ہو جائے گا ہاں مگر پاپا کو خاصے فوائد حاصل ہوں گے۔ ان خبروں اور میری Suspensionسے ۔ وہ واقعی بہت خوش قسمت آدمی ہیں ٹرمپ کارڈ ہمیشہ انہی کے ہاتھ رہتا ہے۔” وہ ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے کہہ رہا تھا۔
”آج کراچی میں کچھ نامعلوم حملہ آوروں نے معروف صحافی شہبازمنیر کو اس وقت گولی مار کرہلاک کردیا جب وہ اپنے آفس میں تھے۔ مقتول ایک صف اول کے انگلش اخبار کے ایڈیٹر تھے حملہ آور جانے سے پہلے ان کے آفس میں موجود تمام دستاویزات کو آگ لگا گئے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے وزیر اعلیٰ اور گورنر نے اس حادثہ پر دلی افسوس۔۔۔”
”ایک تو یہ روز روز کے قتل پتا نہیں حکومت لا اینڈ آرڈر کو ٹھیک کیوں نہیں کر پاتی۔”
نانو کی بڑبڑاہٹ نے علیزہ کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ ٹی وی پر اب نیوز کاسٹر کوئی اور خبر پڑھ رہی تھی۔
”تمہیں کیا ہوا ہے عمر؟” علیزہ نے نانو کی آواز پر چونک کر عمر کو دیکھا۔ وہ ہونٹ بھینچے زرد چہرے کے ساتھ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے ہوئے تھا۔