Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔قسط۔ ۱۳۔ عمیرہ احمد

باب 36

نانو کی بات کا جواب دینے کی بجائے عمر نے اپنے سامنے سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا موبائل اٹھا لیا… وہ اب کوئی نمبر ملا رہا تھا۔
علیزہ نے نانو کو دیکھا، وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں عمر کو دیکھ رہی تھیں۔ اس خبر پر عمر کا ردعمل ان کے لئے غیر معمولی اور حیران کن تھا۔ وہ بار بار موبائل پر کچھ نمبر ڈائل کر رہا تھا۔ مگر شاید رابطہ قائم نہیں ہو پا رہا تھا۔ اب اس کے چہرے پر جھنجھلاہٹ نظر آنے لگی۔ موبائل بند کرکے اس نے تقریباً اسے سینٹر ٹیبل پر پھینک دیا۔ جو وہاں سے پھسلتا ہوا نیچے کارپٹ پر گر پڑا اب وہ لاؤنج میں موجود ٹیلی فون کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ اور نانو خاموشی سے اس کی سرگرمیاں دیکھتی رہیں۔
”انکل ایاز سے بات کرواؤ۔” وہ اب فون پر بڑی درشتی کے ساتھ کسی سے کہہ رہا تھا۔
”آپ کون ہیں؟” دوسری طرف سے اس سے یقیناً یہی پوچھا گیا تھا جس کے جواب میں اس نے کہا۔
”میں عمرجہانگیر ہوں۔ ان کا بھتیجا۔”
علیزہ نے یک دم اس کے چہرے کو سرخ ہوتے دیکھا۔
”بات نہیں کرنا چاہتے وہ مجھ سے؟… فون دو تم انہیں۔” وہ اب بلند آواز سے کسی سے کہہ رہا تھا۔
”میں انہیں فون نہیں دے سکتا۔ وہ آپ سے بات کرنا نہیں چاہتے۔ البتہ آپ کے لئے ان کا ایک پیغام ہے۔”
دوسری طرف سے اسے اطلاع دی گئی۔
”کیا پیغام ہے؟” اس کے ماتھے پر بل آگئے۔
”وہ کل لاہور آرہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ کل لاہور میں ہی رہیں۔ واپس نہ جائیں۔ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔”
”لیکن میں ان سے ابھی اور اسی وقت بات کرنا چاہتا ہوں۔” عمر نے پیغام سننے کے بعد کہا۔



”یہ ممکن نہیں ہے۔”
”کیوں ممکن نہیں ہے؟”
”وہ اس وقت مصروف ہیں۔”
”میں تھوڑی دیر بعد کال کر لوں گا۔”
”وہ تب بھی مصروف ہوں گے۔”
”کیا وہ ساری رات ہی مصروف رہیں گے؟” عمر کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
”ہو سکتا ہے۔” عمر نے فون پٹخ دیا۔
اس کے فون رکھتے ہی نانو نے اسے مخاطلب کیا۔
”کیا پریشانی ہے عمر تمہیں؟”
”کوئی پریشانی نہیں ہے۔” اس نے اسی طرح جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”ایاز کو کیوں بار بار فون کر رہے ہوں؟”
عمر نے ان کے سوال کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ علیزہ نے عمر کے چہرے پر پہلی بار تھکن دیکھی۔
”انکل ایاز نے شہباز کا قتل کروایا ہے۔” علیزہ نے کچھ دیر بعد اسے کہتے سنا۔
”کیا کہہ رہے ہو تم؟ کون شہباز؟” نانو کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
”آپ نے ابھی ٹی وی پر جس جرنلسٹ کے قتل کی خبر سنی ہے میں اسی کی بات کر رہا ہوں۔”
”مگر… مگر ایاز کیوں کسی کو قتل کروائے گا؟”
”شہباز دوست تھا میرا…میں نے پاپا کے خلاف سارے ڈاکومنٹس اس کو آج ہی فیکس کئے تھے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا۔ انکل ایاز اتنی آسانی سے اور اتنی جلدی اس تک پہنچ جائیں گے۔”



”نہیں ایاز اتنی سی بات پر کسی کو قتل نہیں کروا سکتا۔ وہ تو قتل کروا ہی نہیں سکتا۔”
نانو کو عمر کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”آپ کے بیٹے بیورو کریسی میں ایسے گینگ لیڈر ہیں جو خود کو بچانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔” عمر کے لہجے میں تلخی تھی۔
”کراچی کے حالات ویسے ہی خراب ہیں، وہاں اخبارات کے دفاتر پر حملے روز کا معمول ہیں۔ یہ بھی ایسا ہی کوئی حملہ ہو گا۔” نانو نے عمر کی بدگمانی دور کرنے کی کوشش کی۔
”اخبارات کے دفاتر لاہورمیں بھی ہوں اور وہ سچ چھاپنے کی کوشش کریں گے تو ان پر اسی طرح حملے ہوں گے۔ ان کے ایڈیٹرز کو اسی طرح قتل کیا جاتا رہے گا۔ یہاں بات کراچی اور لاہور کی نہیں ہے صرف اپنے چہرے پر چڑھے ہوئے ماسک کو اترنے سے بچانے کی ہے۔”
”پھر بھی ایاز ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے کیا ضرورت ہے خوامخواہ کسی کو قتل کروانے کی۔ سارا جھگڑا تو تمہارا اور جہانگیر کا ہے، وہ خود کو تم دونوں کے جھگڑے میں کیوں انوالو کرتا۔”
”یہ کام کسی ایجنسی کے آدمیوں کا ہے اتنی دیدہ دلیری سے صرف وہی شہباز کے دفتر کو آگ لگا سکتے ہیں اور انکل ایاز اس وقت انٹیرئر منسٹری میں ہیں۔ ایسی غنڈہ گردی وہی کروا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہوں نے پاپا کے کہنے پر ہی شہباز کو قتل کروایا ہو مگر شہباز کو ٹریس آؤٹ صرف انکل ایاز ہی کروا سکتے ہیں اور شاید وہ اس وقت یہ کام کروا چکے تھے جب انہوں نے فون پر مجھ سے بات کی تھی۔ پاپا کو اندازہ ہو گا کہ اخبار میں میرے بارے میں یہ سب کچھ آنے پر میرا فوری ردعمل کیا ہوگا… اس لئے وہ پہلے ہی شہباز منیر کو ٹریس آؤٹ کئے بیٹھے تھے، جب انہیں یقین ہو گیا کہ میں ان کے سمجھانے پر باز نہیں آؤں گا اور جب وہ یہ بھی جان گئے کہ ڈاکو منٹس شہباز تک پہنچ چکے ہیں تو انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر اسے مار دیا… مجھے اگر انکل سے بات کرتے ہوئے ذرہ برابر بھی شک ہو جاتا کہ وہ شہباز کے بارے میں جانتے ہیں تو میں کبھی شہباز کو وہ ڈاکو منٹس نہ دیتا یا کچھ دن انتظار کر لیتا ۔ ” اس کی آواز میں پچھتاوا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!