شہباز منیر کے قتل کو اس نے بڑی دلچسپی کے ساتھ Follow کیا تھا اگرچہ اس دن عمر وہاں سے چلا گیا تھا مگر پھر بھی علیزہ کو امید تھی کہ وہ اس کے قتل کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا۔ خاص طور پر اس لئے کہ یہ قتل اس کی وجہ سے ہوا تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ قتل کس نے کروایا تھا۔
شاید اس لئے اسے امید تھی کہ اگر وہ براہ راست اس بارے میں کچھ نہ بھی کر سکا تو کسی نہ کسی طرح انکل ایاز کا نام ضرور میڈیا میں آجائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اگلے کئی ہفتے تک وہ تمام اخبارات کی ایک ایک خبر پڑھتی رہی۔ شہباز منیر کے قتل نے کچھ عرصہ تک صحافیوں میں ہلچل ضرور مچائی تھی۔ اس کے لئے چند جلوس بھی نکلے تھے اور اس کے اپنے اخبار نے چند روز ہڑتال بھی کی تھی، روز اس کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کسی نہ کسی اخبار میں پیش ہوتا رہا مگر پھر اس خبر پر گرد بیٹھنے لگی۔
وزارتِ اطلاعات کی طرف سے اس کی بیوہ کے لئے ایک چیک جاری کر دیا گیا جس کی تفصیل بھی اخبار میں آئی گورنمنٹ کی طرف سے اسے ایک پلاٹ بھی دے دیا گیا یہ قدرے حیران کن تھا خاص طور پر تب جب گورنمنٹ خود جانے والی تھی مگر علیزہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس چیک اور پلاٹ کے پیچھے کس کی مہربانی کار فرما تھی۔
ایک دو ماہ بعد یک دم گورنمنٹ تبدیل ہو گئی اور پولیٹیکل سیٹ اپ کے بدلتے ہی شہباز منیر کا قتل مکمل طور پر بیک گراؤنڈ میں چلا گیا۔ اخبارات کے صفحے اب سیاسی خبروں اور بیانات سے بھرے ہوئے تھے۔ اگلے انتخابات کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ اتنے دھوم دھڑکے میں کس کو یاد تھا کہ شہباز منیر نام کا ایک شخص تھا جس نے ایک دفعہ اپنے ماں باپ کی احمقانہ باتوں کی وجہ سے اپنے ملک کی طرف واپس ہجرت کی تھی۔ وہ اپنی مرضی سے بیسویں صدی سے واپس بارہویں صدی میں آگیا تھا۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کی احمقانہ باتوں میں آکر لوگوں تک سچ پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ بارہویں صدی کے لوگوں کے سامنے بیسویں صدی کی جرأت دکھانے کی کوشش کی تھی کیا ہوا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس کے ساتھ وہی کیا گیا تھا جو کرنا چاہئے تھے۔ اس ملک کو کس نے کتنا خو ن دیا تھا یہ یاد رکھنے والی بات نہیں تھی۔ اس ملک میں کس نے کتنا خون لیا ہے۔ شاید یاد انہیں ہی رکھا جاتا ہے، شہباز منیر کو بھی بھلا دیا گیا تھا مگر علیزہ کو وہ یاد تھا اور ہر بار اس کا خیال آنے پر اسے عمر سے شکوہ ہونے لگتا اس نے اتنی آسانی سے سب کچھ کیسے بھلا دیا گیا تھا ۔کیا اسے یاد نہیں کہ شہباز منیر کی موت کی وجہ وہی تھا، وہ کم از کم ایک بار اس سے اس بارے میں بات ضرور کرنا چاہتی تھی۔
مگر عمر سے اگلے کچھ ماہ اس کی ملاقات نہیں ہوئی، انکل ایاز اور انکل جہانگیر کے ساتھ اس کی کیا سیٹلمنٹ ہوئی تھی وہ نہیں جانتی تھی مگر وہ اسی دن چلا گیا تھا اس کے بارے میں دوبارہ اخبار میں کوئی خبر نہیں آئی تھی اور نہ ہی وہ معطل ہوا تھا۔ اگلے چند ماہ کے دوران جو واحد خبر علیزہ تک پہنچی تھی، وہ اس کی ایک بہت اچھے شہر میں پوسٹنگ کی تھی اور پھر اس نے اپنا سامان انیکسی سے منگوا لیا تھا۔ وہ سامان لینے خود نہیں آیا تھا۔ اس نے نانو سے فون پر بات کرکے انہیں اپنا سامان منگوانے کے بارے میں بتا دیاتھا اور نانو نے اپنی نگرانی میں اس کے بھجوائے ہوئے ٹرک پر سامان لوڈ کروایا۔
علیزہ نے ایک دن نانو سے شہباز منیر کے قتل کے بار ے میں بات کرنے کی کوشش کی اور وہ اس وقت سن ہو گئی جب نانو نے بہت اطمینان سے کہا۔
”یہ مردوں کے معاملات ہیں، انہیں پتا ہے کس طرح لوگوں کو ڈیل کرنا ہے۔ غلطی عمر کی ہے اس نے کیوں شہباز منیر کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔”
”مگر نانو ! کیا انکل ایاز کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دیں۔”
”اس نے کون سا اپنے ہاتھ سے کسی کو قتل کیا ہے ۔ اپنے آدمیوں کو اس نے شہباز کو ڈرانے دھمکانے کے لئے کہا ہو گا۔ اب انہوں نے قتل کر دیا تو وہ کیا کر سکتا تھا۔” وہ ان کی منطق پر حیران رہ گئی۔
”اپنے ہاتھ سے قتل کرنے والا ہی قاتل نہیں ہوتا۔ قتل کروانے والا بھی مجرم ہوتا ہے۔” اسے نانو کی بات پر افسوس ہوا۔
”ہمیں اس بارے میں بحث کرنے کی یا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے نہ ہمارا شہباز منیر سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس واقعہ کے بارے میں ہم سے پوچھ کر کچھ کیا گیا ہے۔ ایاز نے جیسے بہتر سمجھا، معاملے کو ڈیل کیا۔” نانو ابھی بھی مطمئن تھیں۔
”مگر نانو ! انکل ایاز نے ایک غلط کام کیا۔”
”جو کچھ شہباز کرنے جا رہا تھا۔ وہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ ہمارے خاندان کی بہت رسوائی ہوتی اگر وہ جہانگیر کے بارے میں وہ رپورٹس شائع کر دیتا، میرے سارے بیٹوں کا کیرئیر متاثر ہوتا۔ اب ظاہر ہے ایاز خاموش تو نہیں بیٹھ سکتا تھا۔”
”مگر شہباز جو کچھ شائع کرنے جا رہا تھا۔ وہ جھوٹ نہیں تھا۔ سچ تھا اگر خاندان کی عزت کی بات تھی تو انکل جہانگیر نے کیوں اس طرح کے کام کئے، وہ اس وقت یہ سب کچھ سوچتے جب وہ روپے کے لئے اپنے عہدے کا بری طرح استعمال کر رہے تھے۔”