شہلا کے کہنے پر انہیں سوشل ایکٹیویٹیز کی کوریج کا کام سونپ دیا گیا تھا۔ یہ کام کسی حد تک دلچسپ تھا اور کچھ عرصے تک تو علیزہ کو واقعی اپنے کام میں لطف آنے لگا۔
شہر میں ہونے والی مختلف سماجی تقریبات کے دعوتی کارڈز ان کے آفس آتے رہتے۔ وہ ایک دن میں بعض دفعہ تین چار جگہوں پر بھی جاتیں۔ ادبی محفلیں، مختلف نمائشیں، میوزک کنسرٹس ، سوشل گیدرنگز بہت کم عرصے میں وہ ان جگہوں پر پہچانی جانے لگی مگر جہاں تک اطمینان کا تعلق تھا۔ وہ ابھی بھی اپنے کام سے مطمئن نہیں تھی۔
”یہ سب بے کار کام ہے جو کچھ تم اور میں کر رہے ہیں۔ اس سے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی اور بہتری نہیں آسکتی۔” وہ اکثر شہلا سے کہتی۔
”تو تم کوئی انقلاب لانا چاہتی ہو؟” شہلا مذاق میں کہتی۔
”نہیں۔ میں کوئی انقلاب لانا نہیں چاہتی۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ جو کام میں کروں ۔ اس سے لوگوں کی زندگیوں میں کچھ بہتری تو آئے صرف ایک جاب کرنا تو کوئی بڑی بات نہیں میں چاہتی ہوں میرے کام سے دوسروں کو بھی فائدہ ہو۔”
”تم اچھی بھلی تھیں علیزہ! بس کچھ عرصے سے تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے خاص طور پر پچھلے دو سال میں۔” شہلا تبصرہ کرتی۔
”اس ملک میں اتنی غربت ہے شہلا! کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سڑکوں پر پھرتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر انسان کا دماغ خراب نہ ہو، سوشیالوجی پڑھنے کے بعد بھی اگر میں تمہاری طرح مطمئن بیٹھی یہ سوچتی رہوں کہ ایک دن کوئی مسیحا آئے گا، اور سب کچھ ٹھیک کر دے گا تو شاید اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہو گی۔”
”یار ! میں کب منع کر رہی ہوں تمہیں ، رزلٹ آجائے کوئی این جی او جوائن کر لینا ، سوشل ورک کرنا چاہتی ہو کرنا پھر دیکھ لینا، کتنی بڑی تبدیلیاں لے کر آتی ہو۔”
”ایک شخص سب کچھ نہیں بدل سکتا۔ مگر جس حد تک تبدیلی لا سکتا ہے اس حد تک تبدیلی اور بہتری کے لئے کوشش تو کرنی چاہئے۔ ایک Passive observer بن کر تو زندگی نہیں گزارنی چاہئے۔”
شہلا اس کی باتوں سے قائل ہوتی یا نہ ہوتی مگر خاموش ضرور ہو جایا کرتی تھی اس کا خیال تھا یہ علیزہ کا وقتی جنون ہے جو کچھ عرصہ کے بعد خود ہی ختم ہو جائے گا۔
٭٭٭