Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

اس شام بھی وہ ایک میوزک کنسرٹ کی کوریج کے لئے گئی ہوئی تھیں۔ کنسرٹ نو بجے کے قریب ختم ہو گیا۔ وہ کنسرٹ ختم ہونے سے کچھ پہلے ہی ہال سے نکل آئی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ کنسرٹ ختم ہونے کے بعد اتنا رش ہو جائے گا کہ ان کے لئے باہر نکلنا مشکل ہو جائے گا۔
وہ کنسرٹ کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے پارکنگ کی طرف آرہی تھیں۔ جب انہوں نے اپنے پیچھے کچھ قہقہے سنے، ان دونوں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ چار لڑکوں کا ایک گروپ تھا جو ان سے کچھ فاصلے پر تھا مگر ان لوگوں کی نظریں ان ہی پر جمی ہوئی تھیں۔ واضح طور پر وہ ان ہی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ وہ دونوں انہیں نظر انداز کرتے ہوئے پارکنگ کی طرف جانے لگیں۔
”یہ ہے ہماری نئی جنریشن جنہوں نے اکیسویں صدی میں اس ملک کو Lead کرنا ہے۔”
”Three cheers for them” شہلا نے چلتے ہوئے بلند آواز میں تلخی سے کہا۔ علیزہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ان لڑکوں کی آوازیں اور قہقہے اب اور بلند ہو گئے تھے۔ وہ لوگ مسلسل ان کے پیچھے آرہے تھے۔
”کیا خیال ہے مڑ کر کچھ کہا جائے ان سے؟” شہلا نے سرگوشی میں علیزہ سے پوچھا۔
”نہیں۔ کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی ہم لوگ گاڑی تک پہنچ جائیں گے پھر یہ خود ہی دفع ہو جائیں گے۔”
علیزہ نے بھی سرگوشی میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
”مگر یہ لوگ بے ہودہ باتیں کر رہے ہیں۔” شہلا نے کچھ احتجاج کیا۔
”کرنے دو، ہمارے روکنے پر یہ باز تو نہیں آئیں گے۔ خوامخواہ بات بڑھ جائے گی اور یہ لوگ یہی چاہتے ہیں۔”
علیزہ نے اسے سمجھایا۔ شہلا مطمئن نہیں ہوئی لیکن خاموش ضرور ہو گئی۔



وہ دونوں اب گاڑی کے پاس پہنچ گئی تھیں جبکہ وہ چاروں لڑکے بھی پارکنگ میں داخل ہو گئے۔ علیزہ اور شہلا نے اپنی گاڑی کے اندر بیٹھ کر اطمینان کا سانس لیا۔
علیزہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سڑک پر لے آئی۔ وہ دونوں بڑے مطمئن انداز میں باتیں کر رہی تھیں۔ جب علیزہ نے بیک ویو مرر سے ایک گاڑی کو بڑی تیزی سے اپنے پیچھے آتے دیکھا۔ گاڑی انہیں اوورٹیک کرنے کی بجائے ان کے پیچھے گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگی۔ گاڑی میں وہی چاروں لڑکے سوار تھے۔ علیزہ نے پہلی ہی نظر میں انہیں پہچان لیا۔
”یہ تو پیچھے آنے لگے ہیں ، اب کیا کریں؟” علیزہ نے کچھ پریشان ہو کر شہلا سے کہا۔
”تم کار کی اسپیڈ آہستہ کرو، ہو سکتا ہے۔ آگے نکل جائیں۔”
علیزہ نے شہلا کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کار کی اسپیڈ آہستہ کر دی۔ ان لڑکوں نے بھی اپنی کار کی سپیڈ آہستہ کر دی۔ شہلا نے بے اختیار اپنے دانت پیسے۔
”یہ ذلیل پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ تم اسپیڈ بڑھا دو دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے۔”
علیزہ نے یک دم کار کی سپیڈ بڑھا دی۔ ان لڑکوں کی کار اب برابر چلنے کی بجائے ان کی کار کے پیچھے آرہی تھی۔ کچھ دیر تک وہ مختلف سڑکوں پر کار بھگاتی رہی مگر وہ گاڑی مسلسل ان کے پیچھے رہی۔ تم میرے گھر ہی چلو۔ ہو سکتا ہے، وہاں پیچھا چھوڑ دیںـ” شہلا نے اس سے کہا۔
”لیکن رستے میں اگر ان لوگوں نے گاڑی روک لی تو تمہارے گھر کے راستے پر اس وقت بالکل بھی ٹریفک نہیں ہوتی۔” علیزہ نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
”تم اسپیڈ بہت تیز رکھو اور انہیں اوورٹیک نہ کرنے دینا ایک بار میرے گھر کے باہر گاڑی پہنچ گئی تو پھر کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ چوکیدار ایک منٹ میں گیٹ کھول دے گا۔ نہ بھی کھولا تو باہر تو آہی جائے گا پھر یہ لوگ وہاں نہیں رکیں گے۔”
”مگر مجھے تو ابھی اکیلے ہی گھر جانا ہے۔”



”تم گاڑی اندر لے آنا۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد چیک کر لیں گے کہ یہ لوگ باہر تو نہیں ہیں پھر تم چلی جانا ویسے یہ لوگ رکنے والے نہیں ہیں۔ ہمیں اندر جاتا دیکھ کر دفع ہو جائیں گے یہ بس خوفزدہ کر رہے ہیں ہمیں۔” شہلا نے کہا۔
علیزہ نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے گاڑی اس روڈ پر موڑ دی جہاں شہلا کی کالونی تھی۔ بہت تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے وہ شہلا کے گھر پہنچی تھی۔ ان لڑکوں کی گاڑی بھی اب پوری رفتار سے ان کے پیچھے تھی اور ان کی گاڑی کو ایک سنسان سڑک پر مڑتے دیکھ کر انہوں نے دو تین بار اوورٹیک کرنے کی کوشش کی مگر علیزہ ہر بار کار کی رفتار بڑھاتی رہی۔
شہلا کے گیٹ کے سامنے پہنچتے ہی اس نے ہارن پر ہاتھ رکھ دیا اور کار روک دی۔ وہ لڑکے تیزی سے ان کی گاڑی کے پاس سے گزرے اور پھر علیزہ نے ان کی کار کی رفتار کم ہوتے دیکھی۔ چوکیدار تب تک گیٹ کھول چکا تھا۔ علیزہ برق رفتاری سے کار اندر لے گئی۔ ان دونوں نے پیچھے مڑ کر چوکیدار کو گیٹ بند کرتے دیکھا اور ان کی جان میں جان آئی تھی۔
”ایک بات تو طے ہے، میں دوبارہ کبھی رات کو اکیلے کہیں نہیں جاؤں گی۔” علیزہ نے گہرے سانس لیتے ہوئے کار کی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگالی۔
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ دفع ہو گئے ہوں گے، سارا موڈ غارت کر دیا انہوں نے، میں چوکیدار سے کہتی ہوں۔ ذرا باہر جھانک کر دیکھے۔”
شہلا نے کار سے نکلتے ہوئے کہا۔ وہ اب گیٹ کی طرف جا رہی تھی۔ علیزہ نے بیک ویو مرر سے اسے چوکیدار سے باتیں کرتے دیکھا۔
چوکیدار چند لمحوں کے بعد چھوٹا گیٹ کھول کر باہر نکل گیا۔ شہلا واپس علیزہ کے پاس آگئی۔



”اب یا تو تم آج رات یہیں رہ لو یا پھر چند گھنٹوں کے بعد چلی جانا۔ اتنی گھبراہٹ میں کار چلاؤ گی تو؟” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”نہیں، میں یہاں نہیں رہ سکتی، نانو اکیلی ہیں اور چند گھنٹوں کے بعد کیا ہو گا۔ سڑکیں اور سنسان ہو جائیں گی۔ میں چلا لوں گی گاڑی۔ تم فکر مند مت ہو۔ کچھ دیر پہلے بھی تو چلائی ہے۔” علیزہ نے اسے تسلی دی۔
چوکیدار اب واپس اندر آگیا اور اس نے سڑک خالی ہونے کی اطلاع دی۔
”بس ٹھیک ہے، میں چلتی ہوں،۔” علیزہ نے کار سٹارٹ کر دی۔
”جاتے ہی مجھے فون کر دینا۔ میں انتظار کروں گی۔” شہلا نے کہا۔ علیزہ سر ہلاتے ہوئے گاڑی کو ریورس کرنے لگی۔
بیرونی سڑک واقعی خالی تھی۔ علیزہ کچھ اور مطمئن ہو گئی۔ تیز رفتاری سے اس نے ذیلی سڑک عبور کی اور پھر ایک ٹرن لیتے ہی اس کا سانس رک گیا۔ ان لڑکوں کی گاڑی اب وہاں کھڑی تھی اور وہ گاڑی سے باہر کھڑے تھے۔ علیزہ گاڑی واپس نہیں موڑ سکی اب اس کا وقت نہیں رہا تھا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!