Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

عمر کے چہرے پر اسے حیرانی نظر آئی۔ شاید وہ اس سے اس مشورے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔
”آپ کے پاس بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری ہے آپ واپس امریکہ چلے جائیں یا پھر انگلینڈ جہاں آپ پہلے کام کر رہے تھے۔”
”تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟”
”کیونکہ مجھے آپ کی پروا ہے، آپ خود کو ضائع کر رہے ہیں… سول سروس آپ کو آپ کی ساری خوبیوں سے محروم کر دے گی۔ ” اس نے عمر کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی۔
”کیا عمر جہانگیر میں کوئی خوبی ہے؟”
”پانچ سال پہلے آپ ایسے نہیں تھے مگر اب… آپ… میں نہیں جانتی۔ آپ کو خود اندازہ ہے یا نہیں مگر آپ بدلتے جا رہے ہیں۔”
”میں جانتا ہوں لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا۔”
”آپ واپس چلے جائیں۔” اس نے اصرار کیا۔
”میں نہیں جا سکتا۔” اس نے نرم آواز میں کہا۔
”کیوں؟” عمر نے ایک اور سگریٹ سلگا لیا۔
”چند ہزار روپے کی یہ جاب آپ کے لئے اتنی بڑی Temptationکیوں بن گئی ہے؟”



”بات اس جاب کی نہیں ہے۔ بات اس پاور کی ہے، اس اتھارٹی کی ہے جو یہ جاب مجھے دے رہی ہے۔”
”آپ کو کیا ضرورت ہے اس اتھارٹی کی؟”
”ضرورت ہے، کم از کم اپنے باپ کے سامنے کھڑا ہونے کے لئے مجھے اس اتھارٹی کی ضرورت ہے۔ میرے ہاتھ میں طاقت ہو گی تو میں وہ سب کچھ کر سکتا ہوں جو میں ابھی تک نہیں کر پایا۔”
”کچھ سالوں کے بعد انکل جہانگیر ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ تب آپ کا اور ان کا مقابلہ ویسے ہی ختم ہو جائے گا۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ آپ اس بے معنی مقابلے میں خود کو ضائع نہ کریں… پہلے ہی یہ سب کچھ چھوڑ دیں۔” وہ بڑے خلوص سے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”تم ابھی بھی میچور نہیں ہو علیزہ۔”
”ہو سکتا ہے، آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں مگر اس میچورٹی کا کیا فائدہ ہے جو انسان کو ایک پر سکون زندگی گزارنے نہیں دے رہی۔”
عمر نے سر اٹھا کر سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
”تمہارا خیال ہے میں پر سکون نہیں ہوں۔”
”ہاں آپ پر سکون نہیں ہیں، جو پر سکون زندگی گزار رہا ہو، وہ ڈرنک نہیں کرتا۔ اسے اسموکنگ… یہ دونوں عادتیں آپ نے اب اختیار کی ہیں۔”
وہ اسے قائل کرنا چاہ رہی تھی۔
”تم غلط سمجھ رہی ہو علیزہ! سول سروس میں آنے سے پہلے بھی میں اسموکنگ اور ڈرنک کرتا تھا۔” اس نے انکشاف کیا۔ ” میں چودہ سال کی عمر سے ڈرنک اور اسموکنگ کر رہا ہوں۔” وہ کچھ بول نہیں پائی۔ وہ اب ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کو دیکھ رہا تھا۔
”یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران کو کین بھی لیتا رہا اس لئے ان چیزوں کا سول سروس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
”مگر پانچ سال پہلے جب آپ یہاں آئے تھے تب تو آپ ان دونوں چیزوں کو استعمال نہیں کرتے تھے۔” علیزہ نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
”کرتا تھا… عادتاً نہیں شوقیہ… مگر جب تک یہاں رہا، Avoidکرتا رہا۔”
علیزہ کو سمجھ میں نہیں آیا وہ اب کیا کہے۔ ”مگر تم ٹھیک کہتی ہو میں پر سکون زندگی نہیں گزار رہا۔ ” وہ اب تیسرا سگریٹ سلگاتے ہوئے اعتراف کر رہا تھا۔ ”مگر کیا کیا جا سکتا ہے؟”
”صرف اتھارٹی کے لئے آپ اپنی زندگی برباد کر دیں گے؟”
”میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔”



”کیوں نہیں ہے، آپ واپس چلے جائیں… کم از کم یہ ساری ٹینشن تو ختم ہو جائے گی؟”
”کیا ملے گا واپس جا کر؟ کیا ہے باہر؟ تنہائی، مادہ پرستی ” وہ عمر کی بات پر حیران ہوئی۔ بتیس سال کی عمر میں کیا عمر اب بھی تنہائی سے خوفزدہ ہے؟ مادہ پرستی سے ڈرتا ہے… کیا عمر؟”
”ایک جاب مل جائے گی… دو کمروں کا ایک کابک جتنا اپارٹمنٹ… صبح سے رات تک ڈالرزاور پاؤنڈز کمانے کے لئے مشینی زندگی… کیونکہ ایک لائف اسٹائل Maintainکرنا ہے… کیونکہ زندگی کی وہ آسائشات چاہئیں جن کے ساتھ میں بڑا ہوا ہوں… پینی اور سینٹ جمع کرکے بنایا ہوا بینک بیلنس… نوکروں سے محروم ایک ایسی زندگی جہاں پر اپنے جوتے پالش کرنے سے کھانا پکانے تک ہر کام مجھے خود کرنا پڑے گا۔ جہاں پر گھر میں کچھ مہمان آجانے پر میری سمجھ میں یہ نہیں آئے گا کہ انہیں کہاں بٹھاؤں اور کہاں سلاؤں… تم تو اپنی ممی کے پاس جاتی رہتی ہو، اندازہ کر سکتی ہو، وہ کیسی زندگی گزار رہی ہیں۔”
”مگر سب کچھ ہمیشہ ایسا تو نہیں رہے گا، کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ وہاں سیٹل ہو جائیں گے۔” علیزہ نے کمزور آواز میں کہا۔
”ہاں، ساری جوانی روپے کے پیچھے بھاگنے کے بعد بڑھاپے میں میرے پاس اتنا روپیہ ضرور جمع ہو جائے گا، کہ میں کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی عیش کر سکتا ہوں… عیش؟” وہ عجیب سے انداز میں ہنسنا۔
”مگر یہ سب کچھ تو نہیں ہو گا… یہ الزامات… وہ سب کچھ جو آپ کو مجبوراً کرنا پڑتا ہے وہ تو نہیں کرنا پڑے گا۔”
”مگر وہاں میرے پاس وہ آسائشیں نہیں ہوں گی جو یہاں ہیں اور یہ سب کچھ میری زندگی کا حصہ بن چکا ہے جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی، ویسے ہی میں ان سب سہولتوں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!