”آپ کو پتا ہے۔ آپ نے کیا کیا ہے؟”
”میں نے؟” انکل ایاز نے کچھ چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
”شہباز کو قتل کروایا ہے آپ نے۔”
”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟”
”کیونکہ میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔”
”اگر ایسا ہوا ہے تو یہ تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہوا ہے۔” انکل جہانگیر نے گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
”میں آپ سے بات نہیں کر رہا ہوں۔” عمر نے درشتی سے انہیں ٹوک دیا۔
نانو کو انکل جہانگیر کے اس اعتراف سے جیسے کوئی شاک لگا تھا اور کچھ یہی حال کچن میں موجود علیزہ کا تھا۔ عمر کے قیاس صرف قیاس نہیں تھے۔
”تم کتے کی وہ دم ہو جو ہمیشہ ٹیڑھی رہتی ہے… یہاں تمہارے پاس میں کوئی منت سماجت کرنے نہیں آیا… تمہارے جیسے معمولی جونیئر افسر کی اوقات کیا ہے میرے سامنے… تمہارا دل چاہے تو کسی دوسرے شہباز منیر کی خدمات حاصل کر لینا اور نتیجہ دیکھ لینا۔”
اس کی بات کے جواب میں جہانگیر معاذ نے بے حد سرد اور تلخ لہجے میں اس سے کہا۔ اس سے پہلے کہ عمر کچھ کہتا۔ انکل ایاز نے بروقت مداخلت کی۔
”کیا فضول باتیں شروع کر دیں ہیں تم نے…جہانگیر! میں تمہیں یہاں عمر سے لڑنے کے لئے نہیں لایا ہوں۔ عمر تمہارے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔”
عمرنے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”آپ نے شہباز کو قتل کیوں کروایا؟”
”تم بہت اچھی طرح جانتے ہو۔”
”آپ کتنے لوگوں کو قتل کروائیں گے؟” ڈاکو منٹس تو اب بھی میرے پاس ہیں۔ میں کل کسی اور نیوز پیپر کو دے دوں گا… آپ مجھ پر کتنی نگرانی کروا سکتے ہیں؟”
”کیا ڈاکومنٹس ہیں تمہارے پاس؟ جہانگیر کے کچھ فارن اکاؤنٹس کی تفصیلات… کچھ اور ڈیلز کی تفصیلات… بس؟” ایاز حیدر کا لہجہ یک دم بدل گیا۔
”میرے پاس تمہارے سارے اکاؤنٹس کی تفصیلات ہیں۔ ان کو کیسے جسٹی فائی کرو گے… جب اپنا حصہ لے چکے ہو تو اتنا شور کرنے کی کیا ضرورت ہے… تمہیں یقین تو دلا رہے ہیں کہ انکوائری بھی شروع نہیں ہونے دیں گے۔”
”آپ یہاں مجھے دھمکانے آئے ہیں؟” اس بار عمر نے بلند آواز میں کہا اور علیزہ نے انکل ایاز کو جواباً اس سے بھی بلند آواز میں بولتے سنا۔
”میرے سامنے گلا پھاڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ میں جہانگیر نہیں ہوں کہ تمہاری بکواس اور بدتمیزی برداشت کر لوں گا۔ آواز کو آہستہ رکھ کر بات کرو… پچاس سال سے میرے خاندان نے جو عزت بنائی ہے اسے تم جیسے بیوقوف شخص کے ہاتھوں تبا ہ ہونے تو میں نہیں دوں گا۔ کل بھی تمہیں خاصا سمجھانے کی کوشش کی میں نے… آج بھی صرف تمہارے لئے جہانگیر کو یہاں لے کر آیا ہوں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا… بڑے خاندان اپنا نام اور وقار برقرار رکھنے کے لئے بڑی قربانیاں مانگتے ہیں اور خاندان کا نام بچانے کے لئے شہباز منیر کی جگہ عمر جہانگیر بھی ہو سکتا ہے۔ اس خاندان کو عمر جہانگیر کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات تم اچھی طرح یاد رکھو۔”
علیزہ نے ایاز انکل کو بلند آواز میں اس طرح بات کرتے پہلی بار سنا تھا۔ بلند آواز اس کے لئے اتنی حیران کن نہیں تھی جتنا ان کا غصہ تھا۔
اس کا خیال تھا، عمر جواباً زیادہ تلخ اور بلند آواز میں بات کرے گا… شایدوہ چاہتی بھی یہی تھی… مگر اس کی توقع کے برعکس لاؤنج میں اب بالکل خاموشی تھی۔
اسے حیرت ہوئی۔ ”عمر چپ کیوں ہو گیا ہے؟” اس نے سوچا۔ عمر اگلے کئی منٹ خاموش رہا۔
”میرے خاندان کا نام میرے لئے کسی فخر کا باعث نہیں ہے۔”
”تمہارے لئے اس نام کی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو… لیکن بیورو کریسی میں اس خاندان کانام ہی تمہیں بچائے ہوئے ہے۔ ورنہ تمہارے جیسے سینکڑوں افسر یہاں رُلتے پھرتے ہیں کیونکہ ان کے پیچھے خاندان ہوتا ہے نہ ہی دولت… صرف محنت ہوتی ہے یا پھر قابلیت اور یہ دونوں وہ پر ہیں جو بیورو کریسی کے آسمان پر پرواز کرنا نہیں سکھاتے۔”
علیزہ نے اس بار انکل ایاز کو قدرے ہلکے لہجے میں بات کرتے سنا۔
”جن عہدوں پر تم رہ چکے ہو… وہاں کام کرنے کے لئے لوگ عمریں گزار دیتے ہیں۔ باقی باتوں کو تو چھوڑو… یہ جو فارن سروس سے چھلانگ لگا کرتم فوراً پولیس سروس میں آگئے ہوں۔ اس میں کتنے رولز اور ریگولیشنز حائل ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں تو تم اچھی طرح جانتے ہو گے۔” عمران کی بات کے جواب میں ایک بار پھر خاموش رہا۔ علیزہ کو مایوسی ہوئی۔
رات کو جس طرح وہ شہباز کے بارے میں جذباتی ہو رہا تھا۔ اب اس کے لہجے میں اس افسردگی یا جذباتیت کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
لاؤنج میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ پھر اس نے اندر کچھ سرگوشیاں سنیں… اب مدہم آواز میں انکل ایاز اور عمر کے درمیان کچھ بات ہو رہی تھی۔ آواز اتنی مدہم تھی کہ وہ بات سن سکتی تھی نہ سمجھ سکتی تھی۔ اسے تجسس ہو رہا تھا۔ آخر انکل ایاز اب عمر سے کیا کہہ رہے تھے جو وہ اتنی خاموشی سے سن رہا تھا؟
٭٭٭