Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میں وہ میگزین جوائن کرنا چاہتی ہوں جس کے بارے میں تم اس دن بتا رہی تھیں۔ ” اس دن شام کو وہ شہلا سے فون پر بات کر رہی تھی۔
”یہ یک دم تمہیں میگزین کیسے یاد آگیا؟” شہلا نے کچھ حیران ہو کر دوسری طرف سے پوچھا۔
”بس ویسے ہی میں گھر بیٹھے بیٹھے بور ہونے لگی ہوں، اس لئے سوچا کہ کچھ کیا جائے۔” اس نے کہا۔
”مگر یار! میں تو کوئی این جی او جوائن کرنے کا سوچ رہی تھی۔ آخر ہمارے سبجیکٹ کا تعلق تو ایسے ہی کاموں سے بنتا ہے۔ یہ جرنلزم بیچ میں کہاں سے آگئی؟” شہلا نے اپنا پروگرام بتایا۔
”تو ٹھیک ہے، تم این جی او جوائن کر لو مگر میں تو یہ میگزین ہی جوائن کرنا چاہتی ہوں۔”
”لیکن پہلے تو تمہارا ارادہ بھی این جی او کے لئے کام کرنے کا ہی تھا۔”
”ہاں پہلے تھا لیکن اب نہیں۔”
”کیوں اب کیا ہو گیا ہے؟”
”کچھ نہیں ، بس ویسے ہی۔”
”کہیں تمہارے کزن نے پھر تمہیں کوئی لیکچر تو نہیں دیا؟” شہلا فوراً مشکوک ہوئی۔
”نہیں عمر نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔”



”پھر؟”
”بس میں نے خود ہی اپنا ارادہ بدل دیا۔ این جی او کے لئے بھی کام کرنا چاہتی ہوں لیکن ابھی نہیں رزلٹ آنے کے بعد۔”
”یار تم نے تو میرا پروگرام بھی ڈانواں ڈول کر دیا ہے۔”
”کیوں تمہارا پروگرام کیوں ڈانواں ڈول ہوا ہے؟”
”تم جانتی ہو، مجھے ہر کام تمہارے ساتھ کرنے کی عادت ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم میگزین جوائن کر لو اور میں این جی او کے ساتھ دھکے کھاتی پھروں۔”
”تو پھر تم بھی میگزین جوائن کرلو… انجوائے کرو گی۔ ویسے بھی فیشن میگزین ہے، کام دلچسپ ہے۔”
”اچھا ٹھیک ہے۔ میں کچھ سوچتی ہوں۔” شہلا نے ہامی بھری۔
”سوچو مت بس کل چلتے ہیں وہاں۔” علیزہ نے کہا۔
”اتنی جلدی۔”
”ہاں اس سے پہلے کہ وہ جابز کسی اور کو مل جائیں۔ ہمیں وہاں بات کر لینی چاہئے۔”
”اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہاں جاب نہ بھی ملی تو کہیں نہ کہیں ضرور مل جائے گی۔ پاپا کے اتنے تعلقات ضرور ہیں۔” شہلا نے اسے تسلی دی۔
”جو جاب تعلقات استعمال کرکے ملے ، وہ بھی کوئی جاب ہے… مزہ تو تب ہے کہ ہم اپنی صلاحیتیں استعمال کرکے یہ جاب حاصل کریں۔” علیزہ نے فوراً کہا۔



”ٹھیک ہے یار! چلو اپنی صلاحیتیں استعمال کر لیتے ہیں۔ پھر کل کتنے بجے آؤں؟” شہلا فوراً مان گئی۔
”نو بجے میری طرف آجاؤ، یہاں سے اکٹھے چلیں گے۔ ” علیزہ نے پروگرام سیٹ کرنے کے بعد فون بند کر دیا۔
پیپرز سے فارغ ہونے کے بعد آج کل وہ گھر پر ہی تھی اور کچھ دن پہلے شہلا نے اسے ایک فیشن میگزین سے نکلنے والی کچھ جابز کے بارے میں بتایا تھا۔
علیزہ نے فوری طور پر اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اسے جرنلزم کا شعبہ کبھی بھی اتنا پسند نہیں آیا تھا۔ کہ وہ اسے اپنانے کا سوچتی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ رزلٹ آنے کے بعد کسی اچھی این جی او کے ساتھ منسلک ہو کر کام کرے گی۔
مگر شہباز منیر والے واقعہ کے بعد یک دم ہی اسے جرنلزم میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آج اس نے شہلا کو فون کرکے اس جاب کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ نانو کا اس قدم کے بارے میں کیا ردعمل ہو گا۔ مگر پچھلے بہت سے سالوں سے وہ آہستہ آہستہ اپنے بہت سے فیصلے خود کرنے لگی تھی۔ خاص طور پر نانا کی ڈیتھ کے بعد نانو نے اس کی زندگی میں پہلے کی طرح مداخلت کرنا چھوڑ دی تھی۔ اسے نانو کی طرف سے کسی مخالفت کی توقع نہیں تھی اور اگر نانو مخالفت کرتیں تو بھی انہیں قائل کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھی۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!