Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔قسط۔ ۱۵۔ عمیرہ احمد

باب 42

وہ جس وقت عمر کے ساتھ گھر پہنچی آدھی رات گزر چکی تھی۔ نانو گیٹ کے چکر لگاتے ہوئے اس کا انتظار کر رہی تھیں گاڑی کے پورچ میں رکتے ہی وہ برق رفتاری سے علیزہ کے پاس آگئیں۔ علیزہ بمشکل اپنی آنکھیں کھول پا رہی تھی، سکون آور انجکشن اب مکمل طور پر اثر کر رہا تھا۔
گاڑی سے پاؤں باہر رکھتے ہوئے وہ لڑکھڑائی تو نانو نے اسے پکڑ لیا۔ اس کے سوجے ہوئے نیلے گال کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
”تم ٹھیک ہو؟” انہوں نے علیزہ سے پوچھا۔
”ہاں نانو! میں ٹھیک ہوں۔” وہ بات کرتے ہوئے دقت محسوس کر رہی تھی۔
”اس کو کیا ہو رہا ہے؟”
نانو کچھ گھبرا گئیں۔ عمر تب تک ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ کر پیچھے آچکا تھا۔
”کچھ نہیں گرینی… انجکشن دیا ہے، اس لئے نیند آرہی ہے اسے۔” علیزہ نے اسے کہتے سنا اور پھر شاید اس نے نانو کو ہاتھ ہٹا کر خود اس کا بازو پکڑا تھا۔
علیزہ بمشکل قدم اٹھا پا رہی تھی۔
”تم تو کہہ رہے تھے کہ اسے کچھ نہیں ہوا مگر اس کو تو چوٹیں لگی ہیں۔ ” نانو نے اس کے چہرے اور ہاتھ پر بندھی ہوئی بینڈیج کو دیکھتے ہوئے گلو گیر آواز میں کہا۔
”یہ معمولی چوٹیں ہیں، یہ بالکل ٹھیک ہے۔” وہ اب لاؤنج میں داخل ہو گئے۔



”علیزہ ! کون تھے وہ لڑکے… کیوں تم دونوں کے پیچھے پڑ گئے تھے؟” نانو اب ایک بار پھر اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔
”گرینی! ابھی اس سے کچھ نہ پوچھیں… ابھی اسے سونے دیں۔”
علیزہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی عمر نے نانو سے کہا۔
وہ لاؤنج میں رکا نہیں اس لئے وہ اور نانو سیدھا اس کے کمرے میں چلے گئے، علیزہ نے بیڈ پر لیٹتے ہی آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے جسم کو عجیب سا سکون ملا تھا۔ کسی نے اسے ایک چادر اوڑھائی تھی۔ عمر شاید نانو سے کچھ کہہ رہا تھا، علیزہ اب اس کے الفاظ کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنے اردگرد مکمل خاموشی پائی، آخری احساس کمرے میں ہونے والی تاریکی کا تھا۔ پھر کسی نے دروازہ بند کر دیا۔
اگلے دن وہ جس وقت اٹھی اس وقت دو بج رہے تھے کچھ دیر تو اسے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ اتنی دیر تک سوئی رہی ہے۔ پھر اسے پچھلی رات کے تمام واقعات یاد آنے لگے۔ اس نے انہیں ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس کا جسم اورذہن اس وقت بالکل ہلکے پھلکے تھے، اور وہ ایک بار پھر ٹینس ہونا نہیں چاہتی تھی۔
وارڈ روب سے کپڑے نکال کر اس نے شاور لیا اور پھر اپنے کمرے سے نکل آئی۔ لاؤنج میں آتے ہی اس نے عمر اور نانو کو وہاں بیٹھے دیکھا۔ عمر اسے دیکھ کر مسکرایا۔ وہ بھی جواباً مسکرائی، نانو اس کے پاس آکر اس کا چہرہ دیکھنے لگیں۔
”ابھی بھی سوجن ختم نہیں ہوئی۔” انہوں نے تشویش سے کہا۔
”نہیں پہلے سے کم ہے مگر درد کچھ زیادہ ہو رہا ہے۔ رات کو تو چوٹ کا اتنا پتہ نہیں چلا۔” علیزہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ایک دو دن میں درد ختم ہو جائے گا، البتہ نشان کافی دنوں تک رہے گا۔” عمر نے اس سے کہا۔
”گرینی کھانا لگوا دیں اس کے لئے۔”
”آپ لوگ کھانا کھائیں گے؟”
”نہیں، ہم لوگ کھانا کھا چکے ہیں۔ میں تو صرف تمہارا انتظار کر رہا تھا مجھے واپس جانا ہے۔ میں بس ایک بار تمہیں دیکھنا چاہ رہا تھا۔” عمر نے کہا۔ نانو کچن میں جا چکی تھیں۔
”کیسا محسوس کر رہی ہو تم؟”



”میں ٹھیک ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”جو بھی کچھ ہوا وہ بہت خوفناک تھا مگر میں… ٹھیک ہوں۔”
وہ اسے دیکھتا رہا ”تم پہلے سے کافی بدل گئی ہو۔” کچھ دیر بعد اس نے کہا علیزہ نے چونک کر اسے دیکھا وہ مسکرا رہا تھا۔ ”Much more mature and composed” (زیادہ میچور اور سلجھی ہوئی) اچھی بات ہے۔”
”پتا نہیں … شاید۔۔۔”
”ابھی چند ہفتے تم گھر پر ہی رہنا، اور آئندہ اگر رات کو باہر جاؤ تو ہمیشہ اپنے پاس کوئی ریوالور رکھو۔”
“میں دوبارہ کبھی رات کو باہر ہی نہیں جاؤں گی۔”
”کیوں بھئی… کیوں نہیں ، جاؤ گی تم باہر… کسی حادثے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ گھر میں خود کو بند کر لیا جائے۔ جو ہوا گزر گیا۔ عباس نے دو تین بار فون کیا ہے تم سو رہی تھیں۔ اس لئے میں نے بات نہیں کروائی۔ اس سے بات کر لینا ایک بار ، اور ایاز انکل نے بھی فون کیا ہے۔ ان کو بھی کال کر لینا۔”
”ایاز انکل کو… کیوں…؟ کیا ان کو سب کچھ پتا چل گیا ہے؟” وہ کچھ متفکر ہوئی۔
”ہاں ان سے میری رات کو بات ہوئی تھی ، عباس نے ان کو فون کیا تھا وہ بس تمہاری خیریت دریافت کرنا چاہتے ہیں۔” عمر نے کہا۔
”آپ کل یہاں کیسے…؟” عمر نے اس کی بات کاٹی۔
”میں اتفاقاً آیا تھا، عباس کے پاس تھا جب گرینی نے اس کو فون کیا۔ پھر میں رات یہیں رک گیا۔ بس ابھی نکل جاؤں گا۔” عمر نے تفصیل سے بتایا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!