Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”ان لڑکوں کا کیا ہوا؟ کیس فائل ہو گیا؟” علیزہ کو وہ چاروں یاد آئے۔
”ہاں، میں چلتا ہوں، دیر ہو رہی ہے۔ شام ہو جائے گی مجھے واپس پہنچتے پہنچتے۔” عمر نے اپنی رسٹ واچ دیکھتے ہوئے کہا اور کھڑا ہو گیا۔
”میں واپس جا کر ایک بار پھر تمہیں فون کروں گا۔ اور علیزہ! “Just forget about every thing.”(سب کچھ بھلا دو۔) کچھ بھی نہیں ہوا… سب کچھ ٹھیک ہے۔ ” علیزہ نے ایک گہرا سانس لے کر سر ہلا دیا۔ وہ اسے خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گیا۔
علیزہ فون کا ریسیور اٹھا کر عباس کو کال ملانے لگی۔
”ہاں علیزہ! کیسی ہو تم؟” عباس نے رابطہ ہوتے ہی کہا۔
”میں ؟ٹھیک ہوں۔”
”میں کتنی بار کال کر چکا ہوں، تم سو رہی تھی۔ ابھی دوبارہ کال کرنے ہی والا تھا میں۔ ” عباس نے کہا۔ ”پاپا سے بات ہوئی ہے تمہاری؟”
”انکل ایاز سے… نہیں ابھی میں ان کو کال کروں گی، عمر نے بتایا تھا کہ انہوں نے صبح کال کی تھی۔” علیزہ نے کہا۔ ”تمہاری گاڑی ورکشاپ میں ہے، ایک دو دن تک میں بھجوا دوں گا۔ شام کو میں آؤں گا گرینی کی طرف۔ عمر ابھی وہیں ہے یا چلا گیا؟”
”وہ ابھی ابھی گئے ہیں۔ عباس بھائی ایف آئی آر میں میرا نام بھی آئے گا؟” علیزہ کو کچھ دیر پہلے خیال آیا۔
”نہیں تمہارا نام کیوں آئے گا؟”
”نہیں تو کیس کیسے فائل ہو گا؟ ”



”تم اس کو چھوڑ دو، یہ بتاؤ چہرے پر لگی ہوئی چوٹ ٹھیک ہو ئی ہے کچھ؟ ” عباس نے بات کا موضوع بدل دیا۔
”ہاں۔۔۔”
”گڈ… شام کو میں تمہیں ایک بار پھر ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ تمہارے ہاتھ کی بینڈیج چینج کر دے گا۔ گرینی کو کہو کہ اچھا سا کھانا تمہیں کھلائیں۔ اس کے بعد تم آرام سے کوئی اچھی سی فلم دیکھو یا پھر کسی دوست کو بلوا لو۔ گپ شپ لگاؤ اینڈ جسٹ انجوائے یور سیلف اور ہاں، ایک بہت ضروری بات … ابھی کچھ ہفتے گھر سے نہیں نکلنا۔ گھر پر میں نے گارڈ لگوا دی ہے۔ ابھی کچھ ہفتے اگر کہیں جانا بھی ہے تو پہلے مجھ کو انفارم کر نا ہے اس کے بعد۔۔۔”
وہ پزل ہو گئی۔ ”کیوں…؟”
”بس ویسے ہی… احتیاط اچھی چیز ہے۔ اچھا پھر شام کو آتا ہوں میں خدا حافظ”
فون بند ہو گیا ، وہ الجھی ہوئی ریسیور ہاتھ میں لئے اسے دیکھتی رہی ۔
نانو کھانا لگوا چکی تھیں۔ علیزہ نے کھانا کھایا نانو نے اس سے رات کے واقعات کے بار ے میں کچھ بھی نہیں پوچھا۔ شاید عمر انہیں منع کر چکا تھا۔ وہ صرف اسے اکیلے واپس آنے پر ڈانٹتی رہیں۔ علیزہ خاموشی سے ان کی ڈانٹ سنتی رہی۔ وہ ابھی کھانا کھا رہی تھی، جب ایاز انکل کا فون آیا تھا۔ وہ کچھ نروس ہو گئی جب نانو نے فون پر بات کرنے کے بعد اسے بلوایا۔
”ہیلو علیزہ بیٹا! ہاؤ آر یو…؟” ایاز حیدر نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”فائن…!”
”میری عباس سے بات ہوئی تھی رات کو… ڈونٹ وری… سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے، اور تمہاری چوٹیں کیسی ہیں؟”
”بہت معمولی چوٹیں ہیں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔” علیزہ نے کہا۔
وہ کچھ دیر اسی طرح اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔
”اچھا بیٹا! میں آج رات یا کل لاہور آؤں گا، باقی باتیں پھر ہوں گی، اور ابھی کچھ ہفتے باہر نہیں جانا گھر پر رہنا اور کوئی فون کال خود ریسیو نہیں کرنی ، ممی کو کرنے دو۔ اس کے بعد تم ریسیو کرنا اور اپنے میگزین فون کرکے ریزائن کردو۔”
وہ حیرانی سے ان کی ہدایات سنتی رہی، ریسیور رکھنے کے بعد اس نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے نانو کو دیکھا۔
”شہلا کچھ دیر تک آئے گی وہ بھی صبح سے فون کر رہی ہے میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ سہ پہر کو آجائے۔ ” نانو نے اس کے چہرے کے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بتایا۔
”اچھا۔۔۔” وہ صوفے پر بیٹھ کر ان تینوں کی ہدایات کے بارے میں سوچتی رہی۔
وہ ابھی لاؤنج میں ہی تھی جب آدھ گھنٹہ کے بعد انٹر کام کی بیل سنائی دی۔ خانساماں نے انٹر کام پر بات کی اور پھر باہر نکل گیا کچھ دیر بعد شہلا اندر داخل ہوئی اس نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ علیزہ کو گلے لگایا۔ پھر وہ اس کے ساتھ بیڈ روم میں آگئی۔ رات کے واقعات کے بارے میں وہ دونوں دوبارہ باتیں کرتی رہیں۔
”تمہارے گھر کے باہر اب پولیس کب تک رہے گی؟” شہلا نے اچانک اس سے پوچھا۔
”گھر کے باہر…؟گیٹ پر ایک دو لوگ ہوں گے، مگر کیا گھر کے باہر بھی پولیس ہے۔”



”ہاں پولیس کی ایک گاڑی کھڑی ہے۔ میری گاڑی انہوں نے اندر آنے نہیں دی۔ خانساماں سے تصدیق کروانے کے بعد مجھے اندر آنے دیا۔”
”پتا نہیں کیا پرابلم ہے، مجھ سے بھی سب کہہ رہے ہیں کہ میں چند ہفتے تک باہر نہ جاؤں۔ فون بھی ریسیو نہ کروں اور ایاز انکل نے کہا ہے کہ میں میگزین کی جاب سے ریزائن کردوں۔”
شہلا نے کندھے اچکائے۔” شاید احتیاط کے طور پر یہ سب کر رہے ہوں گے۔ خیر میں کل پھر آؤں گی ، ممی بھی آنا چاہ رہی تھیں مگر میں نے آج انہیں روک دیا۔ کل انہیں لاؤں گی۔” شہلا نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”وہ تو اتنی خوفزدہ ہیں کہ آج انہوں نے مجھے ڈرائیور کے ساتھ بھجوایا ہے۔” شہلا اسے بتاتی رہی۔
علیزہ دروازے تک اسے چھوڑنے آئی۔
شام ہو چکی تھی اور اب اسے عباس کا انتظار تھا، لیکن وہ نہیں آیا اس نے فون پر اپنے نہ آنے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا۔
”علیزہ مجھے کچھ ضروری کام ہے، اس لئے ابھی نہیں آسکوں گا۔”
”کوئی بات نہیں، میری بینڈیج ابھی بالکل ٹھیک ہے۔”
علیزہ نے کہا اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ اور کہتی اس نے ریسیور میں دور سے عمر کی آواز سنی۔
”تم میرے ساتھ چلو گے یا میں خود چلا جاؤں؟”
وہ چونک گئی۔
”اچھا علیزہ ! مجھے کچھ کام ہے، خدا حافظ۔”
عباس نے خاصی عجلت میں فون بند کر دیا۔
”عمر وہاں کیسے ہے، وہ تو واپس اپنے شہر چلا گیا تھا۔” وہ کچھ اور الجھ گئی۔
رات کے کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی آئی، کافی دیر تک اسے نیند نہیں آئی۔ وہ ایک کتاب پڑھتی رہی مگر اس کا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔ جب بہت دیر تک وہ سو نہیں پائی تو اس نے نیند کی ایک گولی لے لی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!