Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

اگلی صبح وہ نو بجے کے قریب بیدار ہوئی۔ ناشتہ کی میز پر نانو نے اس کا استقبال کیا، علیزہ کو خلاف معمول میز پر کوئی بھی نیو ز پیپرز نظر نہیں آیا۔
”نانو! نیوز پیپر کہاں ہیں؟” علیزہ نے اپنے لئے چائے کا کپ تیار کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہیں تھے۔” نانو نے کہا۔ ”تم ناشتہ کرو، بعد میں دیکھ لینا۔”
اسی وقت فون کی گھنٹی بجی، نانو اٹھ کر فون کی طرف بڑھ گئیں۔ دوسری طرف شہلا تھی۔ نانو نے علیزہ کو بلایا۔
”تم نے آج کے اخبار دیکھے ہیں؟” شہلا نے اس کے لائن پر آتے ہی کہا۔
”نہیں۔ کیوں؟”
”تم فوراً دیکھو… فرنٹ پیج۔” علیزہ نے ریسیور رکھ دیا۔
”نانو! نیوز پیپر دکھائیں مجھے… کہاں ہیں؟” وہ نانو کے پاس آگئی۔
”تم ناشتہ۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”پلیز دکھائیں… آپ چھپا کیوں رہی ہیں؟”
”میرے بیڈ روم میں ہیں۔” نانو نے مدھم آواز میں کہا۔
وہ ان کا چہرہ دیکھتی ہوئی ان کے بیڈ روم میں چلی گئی۔
اس نے ایک اردو اخبار اٹھایا اور اس کا فرنٹ پیج کھول کر اس پر نظر دوڑانے لگی۔ شہلا اسے کیا بتانا چاہتی تھی۔ اسے دیر نہیں لگی۔ فرنٹ پیچ کے بائیں کونے میں ایک چار کالمی باکس کے اوپر چار تصویروں کے نیچے ایک پولیس مقابلے کی ہیڈ لائن لگی ہوئی تھی اور اس کے نیچے اس پولیس مقابلے کے بارے میں کچھ مزید خبریں تھیں۔ علیزہ کے ہاتھ کانپنے لگے، بلیک اینڈ وائٹ خون میں لت پت چار چہروں کی وہ تصویریں شاید وہ اس خبر کے بغیر کبھی نہ پہچان پاتی۔



“ماڈل ٹاؤن میں ڈکیتی کے بعد فرار ہونے والے چاروں ڈاکو پولیس مقابلے میں ہلاک۔”
وہ نانو کے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کے پیر بے جان ہو رہے تھے۔
”لاہور (نامہ نگار، پی پی آئی) اتوار کی رات ماڈل ٹاؤن ڈی بلاک میں ڈکیتی کی ایک ناکام واردات کے بعد فرار کی کوشش کرنے والے چاروں ڈاکوؤں کو پولیس نے تعاقب کے بعد ایک سخت مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا۔ ملزمان کی فائرنگ سے دو پولیس کانسٹیبل بھی زخمی ہوئے۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے چاروں ملزمان ہلاک ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کی رات کو رانا مظفر علی خان کے گھر چار ڈاکوؤں نے ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی۔ چوکیدار کو رسیوں سے باندھنے کے بعد ان ڈاکوؤں نے نچلی منزل میں موجود گھر کے تمام افراد کو گن پوائنٹ پر ایک کمرے میں بند کر دیا مگر اسی دوران صا حب خانہ کے ایک بیٹے نے جو دوسری منزل پر تھا موبائل پر پولیس کو اطلاع دے دی۔ جس پر ایس پی عباس حیدر کی فوری ہدایات پر انسپکٹر اختر کی قیادت میں ایک پولیس پارٹی نے موقع واردات پر پہنچنے کی کوشش کی پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آواز سننے پر ملزمان نے پولیس کی گاڑی پر سیون ایم ایم کے ذریعے زبردست فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں دو پولیس کانسٹیبل بری طرح زخمی ہوگئے، جن کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ پولیس پارٹی کی طرف سے دفاع میں فائرنگ کرنے کی کوشش میں چاروں ملزمان شدید زخمی ہو گئے۔ جن میں سے دو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ جب کہ دو ہاسپٹل لے جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان بحق ہوئے۔
چاروں ملزمان تعلیم یافتہ اور با اثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جن میں سے ایک ہائی کورٹ کے ایک جج کا بیٹا بتایا جاتا ہے۔ جب کہ ایک اور ملزم لاہور چیمبر آف کامرس کے ایک اہم عہدے دار کا بیٹا تھا۔ ایس پی عباس حیدر نے پولیس آپریشن میں شامل تمام پولیس والوں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں نقد انعامات اور محکمانہ ترقی دینے کا اعلان کیا ہے، ملزمان کی کار سے بھاری تعداد میں خود کار اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی نقلی تھی۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق ملزمان پہلے بھی اس علاقے میں ہونے والی کئی ڈکیتیوں میں ملوث رہے ہیں۔ مگر ہر بار فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے۔ اس علاقے میں ہونے والی کئی ڈکیتیوں میں واردات پر پائے جانے والے فنگر پرنٹس ملزمان کے فنگر پرنٹس سے مل گئے ہیں۔ پولیس نے گاڑی سے برآمد ہونے والا تمام مسروقہ مال اپنی تحویل میں لے لیا ہے جسے ضروری کارروائی کے بعد اصل مالکان کے حوالے کر دیا جائے گا۔”



اس ہیڈ لائن کے نیچے اس خبر کی تفصیلات کے بعد ایک اور دو کالمی ہیڈ لائن تھی۔ ”پولیس نے میرے بے گناہ بیٹے کو گھر سے اٹھا کر مار ڈالا۔” جسٹس نیاز نے پولیس مقابلے میں اپنے بیٹے کے مارے جانے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں ایس پی عباس حیدر کو اپنے معصوم بیٹے اور اس کے دوستوں کا قاتل قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پولیس مقابلہ کی انکوائری کروائیں۔ اور ایس پی عباس حیدر کو معطل کیا جائے۔ جسٹس نیاز کے بیان کے مطابق اتوار کو ان کا بیٹا گھر پر اپنے بیڈ روم میں سو رہا تھا۔ جب سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ پولیس والے ان کے گھر میں گھس آئے۔ انہوں نے انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا اور ان کے بیٹے کو گن پوائنٹ پر باہر لے گئے۔ اہل خانہ کے شور مچانے پر کالونی کے چند دوسرے چوکیدار ان کے گھر آئے اور انہوں نے ان کے گھر پر موجود دونوں گارڈز کو رسیوں سے آزاد کیا اور پھر اہل خانہ کو بھی دروازہ کھول کر آزادی دلوائی۔ جسٹس نیاز کے مطابق انہوں نے اسی وقت لاہور کے ایس ایس پی امتنان صدیقی کو فون کے ذریعے اپنے بیٹے کے اغوا کی اطلاع دی، جس پر انہوں نے انہیں یقین دلایا کہ اسے بہت جلد برآمد کر لیا جائے گا۔ مگر چند گھنٹوں کے بعد انہیں ایک پولیس مقابلے میں ان کے بیٹے کی موت کی اطلاع دی گئی۔ جب ایس ایس پی امتنان صدیقی سے اس بار ے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جسٹس نیاز کے فون کرنے سے پہلے ہی ان کا بیٹا ایک پولیس مقابلے میں مارا جا چکا تھا۔ مگر ابھی اس کی شناخت ہونا باقی تھی اس لئے انہوں نے جسٹس نیاز کو اطلاع نہیں دی۔ انہوں نے اخباری نمائندوں کو یہ بھی بتایا کہ جسٹس نیاز کے گھر پر تعینات گارڈز کے بیانات کے مطابق مقتول جلال اس وقت تک ابھی گھر پر نہیں آیا تھا اور نہ ہی انہوں نے ان لوگوں کو جلال کو لے جاتے دیکھا۔ جسٹس نیاز کے گھر پہنچنے والے گارڈز کا بیان تھا کہ اگرچہ جسٹس نیاز کے گھر کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا لیکن جس کمرے میں وہ سب تھے اس کمرے کا دروازہ لاکڈ نہیں تھا اور نہ ہی گھر میں کسی کوزبردستی لے جانے کے آثار نظر آرہے تھے۔ تاہم ایس ایس پی نے یقین دلایا کہ وہ جسٹس نیاز کی شکایت پر مکمل تحقیقات کروائیں گے۔
جسٹس نیاز کے علاوہ تینوں ملزمان کے لواحقین نے پولیس پر یہی الزام لگایا ہے کہ ان کے بیٹوں کو زبردستی گھر سے اٹھا کر جعلی پولیس مقابلہ میں مار دیا گیا، لیکن جس علاقے میں ڈکیتی کی کوشش کی گئی تھی، اس علاقے کے لوگوں اور گھر کے افراد نے پولیس کے بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا ہے۔ گھر کے مالک اور دوسرے افراد خانہ نے ان چاروں ملزمان کو شناخت کر لیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!