Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

ایک اور یک کالمی خبر چاروں ملزمان کے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بارے میں تھی، جس میں ڈاکٹرز جو موت کا وقت بتایا تھا، وہ اس وقت سے پہلے تھا، جب جسٹس نیاز نے ایس ایس پی امتنان صدیقی کو فون کیا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ملزمان کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات نہیں تھے اور ان کی موت بہت دور سے چلائی جانے والی رائفلز کی گولیوں سے ہوئی تھی۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے چیف منسٹر نے جسٹس نیاز کی شکایت پر اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
وہ اخبار ہاتھ میں لئے بہت دیر تک بے حس و حرکت وہیں بیٹھی رہی۔
”ابھی ان چاروں کا کیا کریں گے؟” اسے اس رات عمر سے پوچھا جانے والا اپنا سوال یاد آیا۔
”کچھ نہیں…پولیس اسٹیشن لے جائے گا۔ ایف آئی آر کاٹے گا اور پھر بند کر دے گا۔”
”اس کے بعد کورٹ میں کیس چلے گا۔ سزا وغیرہ ہو جائے گی۔”
وہ بے یقینی سے اس رات ان دونوں کی گفتگو کے بارے میں سوچتی رہی۔
”تم علیزہ کو گھر لے جاؤ، علیزہ ! تم گھر جا کر آرام سے سو جاؤ۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔” اسے عباس کی باتیں یاد آئیں۔ میں نے کیوں یہ نہیں جانا کہ وہ دونوں نہیں، وہ دونوں نہیں صرف عباس… ان چاروں کو اس وقت مارنے کے لئے اکٹھا کر رہا تھا ورنہ وہ مجھے فوری شناخت کے لئے ساتھ لئے لئے نہ پھرتا، اگلے دن کا انتظار کرتا پولیس مقابلہ… پولیس مقابلہ۔۔۔”



اس کا چہرہ پسینے میں بھیگنے لگا۔ وہ ان چاروں کے خون میں لتھڑے ہوئے چہروں پر دوبارہ نظر ڈالنے کی جرات نہیں کر سکی۔ غم و غصے اور بے یقینی کا ایک آتش فشاں جیسے اس کے اندر ابل پڑا تھا۔
”اتنی بے رحمی سے کوئی کسی کو کیسے مار سکتا ہے۔ اور اس طرح… اس طرح… عباس کو کوئی خوف نہیں آیا اس نے مجھے اور عمر دونوں کو اندھیرے میں رکھا۔” اس کا دماغ جیسے پھٹنے لگا تھا۔اخبار لئے وہ غصے کے عالم میں باہر لاؤنج میں آئی، اس نے شہلا سے بات کرنے کی بجائے لائن ڈس کنیکٹ کردی اور عباس کا نمبر ملانے لگی۔
”صاحب میٹنگ میں گئے ہوئے ہیں۔” دوسری طرف سے اسے اطلاع دی گئی۔ اس نے فون پٹخ دیا۔
نانو نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اخبار اور اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ عباس سے بات کیوں کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے علیزہ کو مخاطب کیا۔
”کیا ہوا علیزہ…؟ عباس سے کیا بات کرنی ہے؟”
علیزہ نے وہ اخبار ٹیبل پر پٹخ دیا۔ He is a murderer” آپ دیکھیں نانو! اس نے کس طرح ان چاروں کو قتل کروایا ہے۔ چار لوگوں کو… میرے خدا …میرے سامنے اس نے ان میں سے دو کو ان کے گھروں سے اٹھوایا تھا… اور وہ چاروں پولیس کسٹڈی میں زندہ تھے اور وہ کہتا ہے پولیس مقابلے میں مر گئے۔” ا س کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
نانو اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے صرف خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔ وہ اب دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر غصہ اور بے بسی نمایاں تھی۔
”مرید بابا! پانی لے کر آئیں۔” نانو نے بلند آواز میں خانساماں کو پکارا۔
”مجھے پانی کی ضرورت نہیں ہے نانو۔” علیزہ نے یک دم سر اٹھا کر انہیں دیکھا ، اس کا چہرہ اب بھی سرخ تھا۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”نہ انکل ایاز کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی اہمیت تھی نہ ان کے بیٹے کے نزدیک۔” وہ بے چینی سے لاؤنج میں ٹہل رہی تھی۔
”آپ کو شہباز منیر یاد ہے نا… انکل ایاز نے اسے بھی اسی طرح ختم کروا دیا تھا، عمر ٹھیک کہتا تھا وہ بالکل ٹھیک کہتا تھا۔” اس کا اشتعال اب بڑھتا جا رہا تھا، مجھے… مجھے سمجھ لینا چاہئے تھا کہ وہ … آپ نے کیوں عباس کو مدد کے لئے بلوایا؟” وہ یک دم چلائی۔
”تو اور کس کو بلاتی؟ فوری طور پر اور کون آسکتا تھا؟” نانو نے کچھ روکھے انداز میں کہا۔
”یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے… سب میری وجہ سے۔” وہ ایک بار پھر کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔
”اس طرح کمرے میں پھرنے سے کیا ہو گا؟” نانو نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ ”تم آرام سے بیٹھ جاؤ۔”
”نانو! میں… میں آرام سے کیسے بیٹھ جاؤں؟… چار انسانوں کا خون اپنے سر لے کر میں آرام سے بیٹھ جاؤں… آپ کیسی باتیں کرتی ہیں؟”
”تم نے ان چار انسانوں کو قتل نہیں کیا، اس لئے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”ہاں، میں نے قتل نہیں کیا، مگر وہ میری وجہ سے قتل ہوئے ہیں۔”
”وہ تمہاری وجہ سے قتل نہیں ہوئے۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ نہ وہ اس طرح کی حرکت کرتے نہ یوں مارے جاتے۔” نانو نے سنجیدگی سے کہا۔



وہ چلتے چلتے رک گئی۔ ”نانو ! یہ آپ کہہ رہی ہیں؟”
”ہاں، میں کہہ رہی ہوں۔ عباس نے جو کیا ٹھیک کیا۔”
وہ بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
”مجھے یقین نہیں آرہا نانو! کہ میں یہ سب کچھ آپ کے منہ سے سن رہی ہوں۔”
”تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ گھر کے مردوں کے ہینڈل کرنے کے معاملات ہوتے ہیں اور انہوں نے جس طرح بہتر سمجھا اس معاملے کو ہینڈل کیا۔” نانو نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”اور مردوں کی اس ہینڈلنگ نے چار انسانوں کو زندگی سے محروم کر دیا۔ آپ تو بہت سوشل ورک کرتی رہی ہیں نانو! کیا آپ یہ چھوٹی سی بات نہیں سمجھ سکتیں کہ۔۔۔”
نانو نے اس بار کچھ غصے کے عالم میں اس کی بات کاٹ دی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!