Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”تم جو چاہے کہو۔ مجھے مرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ چند گھنٹے جو میں نے پرسوں رات تمہارے انتظار میں گزارے تھے۔ ان کی تکلیف بھی کسی قتل سے کم نہیں تھی… یہ چاروں بے گناہ تو نہیں مارے گئے۔”
”مگر ان کے جرم کی سزا کم از کم میرے نزدیک موت نہیں تھی… اور پھر اس طرح کی مو ت کہ چار انسانوں کو کسی ٹرائل کے بغیر اٹھا کر مار دیا جائے۔” وہ نانو کی جذباتیت سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔ ”یہ پولیس اسٹیٹ تو نہیں ہے جہاں کسی کو بھی پکڑ کر اس کے جرم کی سنگینی اور نوعیت کا اندازہ کئے بغیر شوٹ کر دیا جائے۔”
”تمہیں ان چاروں سے اتنی ہمدردی جتانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”کیوں نہیں ہے… جب میں یہ جانتی ہوں کہ ان چاروں کو پولیس نے واقعی قتل کیا ہے۔ وہ کسی پولیس مقابلے میں انوالوڈ نہیں تھے تو پھر میں ان سے ہمدردی کیوں نہ جتاؤں… جب میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ صرف میری وجہ سے اس طرح مارے گئے ہیں۔”
نانو یک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں ” میں تم سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں۔ وہ تمہاری وجہ سے نہیں اپنی حرکتوں کی وجہ سے مارے گئے ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے… آج نہیں تو کل… تمہاری وجہ سے نہیں تو کسی اور کی وجہ سے مارے جاتے… مگر مارے ضرور جاتے۔”



وہ کہہ کر لاؤنج سے نکل گئیں، واضح طور پر وہ علیزہ کے ساتھ کسی مزید بحث سے بچنا چاہتی تھیں۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر انہیں کمرے سے نکلتے دیکھتی رہی۔
وہ نانو کے جانے کے بعدوہ بے بسی سے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ کیا کرے۔ اس کے کانوں میں بار بار اس رات عباس کی گفتگو گونجتی رہی اور یاد آنے والا ہر جملہ اس کے غم و غصہ میں اضافہ کرتا رہا۔
شہلا نے کچھ دیر بعد ایک بار پھر فون کیا تھا اور علیزہ نے دوسری طرف سے شہلا کی آواز سنتے ہی کہا۔
”شہلا! میں ابھی تم سے بات نہیں کر سکتی… تم تھوڑی دیر کے بعد مجھے رنگ کرنا۔”
شہلا کچھ حیران ہوئی ”تم ٹھیک تو ہو؟”
”نہیں۔ میں ٹھیک نہیں ہوں… میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوں۔ اسی لئے تو تم سے بات نہیں کر سکتی۔” اس نے فون کا ریسیور پٹخ دیا۔ وہ خود نہیں سمجھ سکی تھی کہ اسے شہلا پر اتنا غصہ کیوں آیا تھا۔
وہ کچھ دیر اسی طرح اپنے اگلے اقدام کے بارے میں سوچتی رہی پھر اس نے ایک بار پھر عباس کو فون کیا۔ آپریٹر نے پہلے والا جواب دوبارہ دہرایا۔
”وہ میٹنگ میں ہیں۔”
”کب فارغ ہوں گے؟”
”اس کے بارے میں پتا نہیں ، آپ میسج چھوڑ دیں۔”



علیزہ نے کوئی پیغام چھوڑنے کے بجائے فون بند کر دیا اور عباس کے موبائل پر کال کرنے لگی۔ موبائل آف تھا۔ اس نے عمر کے موبائل پر نمبرملایا، عمر کا موبائل بھی آف تھا۔ اس کی بے چینی بڑھنے لگی۔ عمر آخر اس وقت کہاں تھا؟ وہ جاننا چاہتی تھی، پچھلی دوپہر عباس کے ساتھ تھا۔ یہ وہ جانتی تھی اورکیوں تھا؟ اب وہ اندازہ کر سکتی تھی۔
”وہ یقیناً عباس کے ساتھ اس سارے معاملے کے بارے میں بات کر رہا ہو گا، میری طرح اسے بھی شاک لگا ہو گا اور وہ شاید کل ہی یہ سب کچھ جان گیا تھا۔ اسی لئے وہ واپس جانے کے بجائے لاہور میں ٹھہر گیا تھا۔ اس نے یقیناً عباس سے اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہو گا۔ اسے بتایا ہو گا کہ اس نے کتنا غلط کام کیا ہے۔ وہ ضرور اس سارے معاملے کے بارے میں کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھائے گا۔ کم ازکم اس بار وہ عباس کو بچنے نہیں دے گا… اس طرح جس طرح انکل ایاز شہباز کو قتل کروانے کے بعد بچ گئے۔ اس بار تو عمر کے پاس ہر ثبوت موجود ہے۔ میں گواہی دوں گی۔ پھر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انکل ایاز کے بیٹے کو سزا نہ ملے۔” وہ لاؤنج میں بیٹھی سوچ رہی تھی۔
”مگر عمر… عمر کہاں ہے؟… اسے موبائل تو آف نہیں کرنا چاہئے تھا… مجھے فون کرنا چاہئے تھا اسے… مجھ سے بات کرنی چاہئے۔ یہ تو وہ جان ہی گیا ہو گا کہ نیوز پیپرز کے ذریعے ہر چیز مجھے پتا چل گئی ہے… اسے احساس ہونا چاہئے تھا کہ میں اسے کال کر سکتی ہوں۔”
وہ بری طرح جھنجھلا رہی تھی، جب فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے فون کا ریسیور اٹھالیا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!