Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”جسٹس نیاز بہت غصے میں تھے اور ان کا غصہ بجا ہے۔” چیف جسٹس ثاقب شاہ اس وقت فون پر چیف منسٹر سے فون پر بات کر رہے تھے۔
”اگر کسی کے بیٹے کو گھر سے اس طرح اٹھا کر مار دیا جائے گا اور وہ بھی ہائی کورٹ کے ایک جج کے بیٹے کو… تو پھر ایک عام شہری کے ساتھ آپ کی یہ پولیس کیا کرتی ہو گی؟” چیف منسٹر نے ان کے لہجے کی تلخی محسوس کی۔
”شاہ صاحب! میں اس واقعے پر کس قدر شرمندہ ہوں۔ میں بتا نہیں سکتا۔ ” ثاقب شاہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”خالی شرمندگی سے تو کچھ نہیں ہو گا۔”
”میں نے انکوائری شروع کروا دی ہے۔ جیسے ہی۔۔۔” ثاقب شاہ نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹی۔
”کیسی انکوائری؟… پولیس نے اس کو مارا ہے اور آپ پولیس کے ہاتھوں ہی انکوائری کروا رہے ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ پولیس سچ سامنے لے آئے گی؟”
”ٹھیک ہے پولیس کے بجائے کسی جج سے کروا لیتے ہیں ؟ آپ نام تجویز کر دیں۔میں آرڈر ایشو کر دیتا ہوں۔” چیف منسٹر نے فوراً تجویز پیش کرتے ہوئے کہا۔
”آپ کمیشن پہ کمیشن بٹھائے جائیں، مگر عملی طور پر کچھ نہیں کریں گے۔”اس بار ثاقب شاہ کی آواز پہلے سے زیادہ بلند تھی۔
”شاہ صاحب! آپ غصہ نہ کریں… آپ بتائیں کہ میں کیا کروں… کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟” چیف منسٹر نے اپنی آواز قدرے مدہم کرتے ہوئے کہا۔
”جسٹس نیا زکا مطالبہ کیوں نہیں مانتے آپ؟”
”کون سا مطالبہ؟”
”عباس حیدر کی معطلی کا۔”



”انہوں نے مجھ سے تو ایسی کوئی بات نہیں کی، بلکہ میرا تو وہ فون اٹینڈ کر رہے ہیں نہ ہی مجھے اپنے گھر آنے کی اجازت دے رہے ہیں، میرا پی۔اے دو گھنٹے لگا تار ان کی منت سماجت کرتا رہا ہے کہ وہ میرا فون اٹینڈ کر لیں یا پھر مجھے اپنی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع دیں۔ مجھے بھی افسوس ہے ان کے بچے کی موت کا… اور میں چاہتا تھا کہ خود ان کی فیملی سے ملاقات کروں… ان کے گھر جاؤں… مگر انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ چیف منسٹر کو میرے گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ آئے گا تو گیٹ کے باہر کھڑا رہے گا ۔ میں اس کی شکل تک نہیں دیکھوں گا۔ آپ خود سوچیں کہ یہ کوئی طریقہ ہے ایک صوبے کے چیف منسٹر کے بارے میں بات کرنے کا۔” چیف منسٹر نے پہلی بار قدرے بلند آواز میں جسٹس نیاز کے رویے کی شکایت کی۔
”غصے میں انسان بہت کچھ کہہ جاتا ہے… آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ان کا جوان بیٹا مار دیا ہے آپ کی پولیس نے۔” ثاقب شاہ نے فوراً جسٹس نیاز کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے… مانتا ہوں… وہ غصہ میں ہیں، مگر یہ سب کچھ انہیں پریس کے سامنے تو نہیں کہنا چاہئے تھا۔ چار اخباروں نے آج اسی خبر کو انہی کے الفاظ کے ساتھ فرنٹ پیج پر ہیڈ لائن بنا دیا ہے۔ جسٹس نیاز کا چیف منسٹر سے ملنے سے انکار… آپ خود سوچیں انتظامیہ پر کیا اثر ہو گا اس ہیڈ لائن کا۔۔۔”
ثاقب شاہ نے اس کی بات ایک بار پھر کاٹ دی۔
”جسٹس نیاز نے آپ سے ملنے سے تب انکار کیا تھا۔ جب آئی جی نے عباس حیدر کو معطل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نہ صرف اس سے انکار کیا بلکہ اسے بے گناہ بھی قرار دیا۔ میرے کہنے پر بھی آئی جی اپنی بات پر اڑا رہا… اس نے کہا کہ امتنان صدیقی نے اسے جو رپورٹ دی ہے ، اس کے مطابق تو عباس حیدر نے ایک کارنامہ کیا ہے… بروقت کارروائی سے اس نے ایک پورے خاندان کی جان بچائی ہے۔ جب میں نے کارروائی پر اصرار کیا۔ تو آئی جی نے کہا کہ چیف سیکریٹری سے بات کرلیں یا چیف منسٹر سے اگر اوپر سے آرڈرز آجائیں تو میں عباس کو معطل کر دوں گا۔” ثاقب شاہ اب غصے میں بول رہے تھے۔
”اور چیف سیکریٹری دو گھنٹے پہلے سروسز ہاسپٹل کے کارڈیک یونٹ میں داخل ہو گیا ہے۔ اس کے پی اے کے مطابق اسے دل کی تکلیف شروع ہو گئی ہے اور اس نے دو ہفتے کی میڈیکل لیو مانگ لی ہے۔ ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق… دو ہفتے کے بعد جب سارا معاملہ ختم ہو جائے گا تو وہ فوراً صحت یاب ہو کر سروسز سے باہر آجائے گا اور آپ سے بات کر رہا ہوں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ جسٹس نیاز نے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہی نہیں۔”



”شاہ صاحب… جسٹس نیاز صاحب کا مطالبہ مجھ تک پہنچا تھا۔ آئی جی نے بتایا تھا مجھے… لیکن تحقیق کے بغیر میں ایک سینئر پولیس آفیسر کو کیسے معطل کر سکتا ہوں؟ آئی جی نے تو مجھ پر اپنی ناراضی ظاہر کی تھی جس طرح آپ نے اورجسٹس نیازنے ان سے بات کی… انہوں نے کہا تھا کہ آپ پولیس کے کام میں دخل اندازی کر رہے ہیں، شکایت کی جاتی ہے کہ لااینڈ آرڈر ٹھیک کیا جائے جب ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر اوپر سے اس طرح کا پریشر پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ ” ثاقب شاہ کو ان کی بات پر اور غصہ آیا۔
”آئی جی کے بیان کی آپ کے نزدیک ہائی کورٹ کے جج اور چیف جسٹس سے زیادہ اہمیت ہے؟”
”ایسی بات نہیں۔۔۔” ثاقب شاہ نے ان کی بات نہیں سنی۔
”جسٹس نیاز کے معصوم بیٹے کو اس کے گھر سے اٹھا کر قتل کرنے کے بعد آپ کی پولیس کہتی ہے کہ وہ لا اینڈ آرڈر ٹھیک کر رہی ہے… ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کو مارنے سے لا اینڈ آرڈر ٹھیک ہو جائے گا؟” چیف منسٹر مشکل میں پھنس گئے۔
”آپ میری بات نہیں سمجھے شاہ صاحب! میں تو آئی جی کا بیان دہرا رہا تھا آپ کے سامنے، میں نے تو نہیں کہا کہ ان ہی کا بیان ٹھیک ہے، ہو سکتا ہے ان کے پاس بھی صحیح معلومات نہ ہوں۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!