Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”آئی جی کے پاس صحیح معلومات نہ پہنچیں… یہ ممکن نہیں ہے تو وہ کیسے ایک صوبہ سنبھالے گا… پھر تو اس کو بھی اتارنا چاہئے۔ اس سے بہتر شخص لے کر آئیں اس پوسٹ پر۔”
”میں آپ کے غصے کو سمجھ سکتا ہوں۔”
”نہیں، آپ میرے غصے کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ آپ اپنی انتظامیہ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ میرا غصہ کسی فرد کا غصہ نہیں ہے۔ سارے ججز ناراض ہیں… آج جسٹس کے بیٹے کو مارا ہے۔ کل میرے بیٹے کو اٹھا کرلے جائیں گے آپ لوگ۔”
”ابھی تو چوبیس گھنٹے ہی گزرے ہیں اس واقعہ کو… اتنی جلدی نتائج اخذ مت کریں۔” چیف منسٹر نے انہیں ٹوکا۔
”آپ عباس کو معطل کر دیں۔ میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرتا۔”
”میں اسے معطل نہیں کر سکتا۔” چیف منسٹر نے اپنی بے بسی کا پہلی بار اظہار کیا۔
”کیوں ؟….اس لئے کہ وہ ہوم سیکرٹری کا بیٹا ہے؟”



”بات صرف ایک ہوم سیکریٹری کی نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر بیورو کریسی کا ایک پورا حصہ ہے اس کے ساتھ۔ عباس کی بہن کور کمانڈر کے بیٹے کے ساتھ بیاہی ہوئی ہے… عباس کی بیوی کا چچا وفاقی حکومت میں وزیر ہے… وہ کوئی عام سول سرونٹ تو ہے نہیں جسے میں اٹھا کر باہر پھینک دوں۔ آپ میری پوزیشن سمجھنے کی کوشش کریں۔”
”آپ بھی میری پوزیشن سمجھنے کی کوشش کریں۔ چیف جسٹس کے طور پر اپنے ماتحت کام کرنے والے ججز کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی پر ایکشن لینا میرا فرض بنتا ہے۔ ” ثاقب شاہ کی آواز کچھ دھیمی پڑ گئی۔
”جسٹس نیاز نے باقاعدہ مجھ سے شکایت کی ہے… بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی خود فون کرکے مجھ سے اسی سلسلے میں بات کی ہے۔”
”میں سمجھتا ہوں سب کچھ… شاہ صاحب آپ جسٹس نیاز کو تھوڑا سمجھائیں، عباس کے خلاف انکوائری کروا دیتے ہیں مگر معطل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باپ نے بات کی ہے مجھ سے… کل وہ لاہور آرہا ہے تو اس سے آمنے سامنے بات ہو گی… میں ان کانسٹیبلز اور انسپکٹرز کو معطل کر دیتا ہوں جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا تھا… پھر اگر انکوائری میں عباس کے خلاف کوئی ثبوت مل گئے تو ایکشن لینے کا کوئی جواز تو ہو گا پاس… ابھی اگر اس کو معطل کر بھی دیتے ہیں… اور بعد میں وہ بے گناہ ثابت ہوا تو میری وزارت اعلیٰ چلی جائے گی۔ اس لئے میں اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا۔ آپ جسٹس نیاز کو سمجھائیں، ان سے بات کریں… بلکہ وہ کل میرے گھر آجائیں، ان سے وہاں ایاز حیدر اور عباس کی بھی ملاقات کروا دوں گا… آمنے سامنے بات ہو تو زیادہ بہتر ہے۔”



ثاقب شاہ خاموشی سے ان کی بات سنتے رہے۔
”میں جسٹس نیاز تک آپ کا پیغام پہنچا دوں گا… جہاں تک سمجھانے کا تعلق ہے تو یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ آپ اس سلسلے میں خود ان سے بات کریں۔”
”آپ نے انکوائری کے لئے کسی کا نام تجویز نہیں کیا؟” چیف منسٹر نے انہیں یاد دلایا۔
”میں پہلے جسٹس نیاز سے بات کرلوں، اس کے بعد ہی اس سلسلے میں آپ کو کوئی نام دے سکوں گا… اگر انہوں نے آپ کی پیش کش مان لی تو ٹھیک ہے ورنہ پھر میں کسی کا نام تجویز نہیں کروں گا۔”
چیف جسٹس نے صاف لفظوں میں کہا اور پھر اختتامی کلمات کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!