Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

باب 43

اگلے دو دن گھر میں کالز اور ملنے کے لئے آنے والوں کا تانتا باندھا رہا ۔ علیزہ شادیوں کے علاوہ پہلی بار اپنے تقریباً تمام جاننے والوں اور رشتہ داروں کو دیکھ رہی تھی۔ زیادہ تر لوگ بار بار فون کرکے نمرہ کی آخری رسومات کے بارے میں حتمی معلومات لے رہے تھے۔ گھر میں اس کے تمام انکلز اپنی فیملیز کے ساتھ آچکے تھے۔
علیزہ نے لوگوں کے اسی آنے جانے کے دوران عمر کو بھی دو تین بار گھر آتے جاتے دیکھا۔ اس کے ساتھ جوڈتھ نہیں تھی اور وہ اکیلا ہی تھا۔ وہ اس سے تعزیت کرنا چاہتی تھی مگر عمر کے رویے نے اسے اس قدر حیران کیا کہ وہ اس سے بات کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکی۔
وہ جانتی تھی کہ نمرہ اس کی سگی بہن نہیں ہے پھر بھی عمر جس قدر جذباتی اور نرم دل شخص تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنی بہن کی موت پر خاصا افسردہ ہو گا۔ مگر عمر کے تاثرات اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ وہ بالکل پر سکون تھا۔ لوگوں کے تعزیتی کلمات وصول کرتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر کسی غم یا افسردگی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسے نمرہ کی موت پرکوئی شاک لگا تھا نہ ہی دکھ ہوا تھا… یا پھر شاید اسے نمرہ کی مو ت یا زندگی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔
علیزہ کے لئے اس کے تاثرات بہت شاکنگ تھے۔ جو شخص ایک کزن اور ایک گرل فرینڈ کے لئے آؤٹ آف دا وے جا کر سب کچھ کرنے پر تیار ہو۔ جو اپنے ایک انڈور پلانٹ کی کاٹی جانے والی شاخ کو دوبارہ گملے میں تب تک لگائے رکھتا ہے جب تک وہ سوکھ نہ جائے اور سوکھنے کے بعد بھی جو اسے ہٹانے پر تیار نہ ہو… وہ ایک سوتیلے سہی مگر خونی رشتہ کی اس طرح کی موت پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کر رہا تھا… کیا عمر کا واقعی اپنی فیملی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا؟ … کیا وہ واقعی ان کے بارے میں کسی قسم کے کوئی احساسات نہیں رکھتا؟ کیا وہ اپنی فیملی کو اس حد تک ناپسند کر سکتا ہے کہ…؟ یا پھر وہ ہمیشہ کی طرح بہت کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے؟



علیزہ اپنے ذہن میں ابھرنے والے ان تمام سوالوں سے الجھ رہی تھی، وہ بہت اچھی چہرہ شناس نہیں تھی مگر اسے پھر بھی یہ یقین تھا کہ اس نے عمر کا چہرہ پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں کی۔ اس کے چہرے پر بے حسی اور لا تعلقی کے علاوہ ایک تیسرا تاثر بھی تھا اور یہ تیسرا تاثر علیزہ کو زیادہ خوفزدہ کر رہا تھا… عمر کے چہرے پر اطمینان تھا۔
تیسرے دن جہانگیر نمرہ کی ڈیڈ باڈی لے کر پاکستان آگئے۔ ان کے ساتھ ثمرین اور باقی دونوں بچے بھی تھے۔ علیزہ کو جہانگیر معاذ کے چہرے پر بھی کسی رنج یا افسردگی کے تاثرات نظر نہیں آئے۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی تھی… وہی سنجیدگی جو وہ پہلے بھی کئی بار تب ان کے چہرے پر دیکھ چکی تھی، جب وہ شدید غصے میں ہوتے تھے۔
جہانگیر کے برعکس ثمرین خاصی نڈھال نظر آرہی تھیں۔ ان کے باقی دونوں بچوں کے چہروں پر بھی ایسے ہی تاثرات تھے۔
بیرون ملک سے اکٹھے آنے کے باوجود تمام لوگوں کی طرح علیزہ نے بھی محسوس کیا ثمرین ، ان کے بچوں اور جہانگیر کے درمیان ایک عجیب سی کشیدگی اور سرد مہری تھی۔ علیزہ کا خیال تھا کہ انکل جہانگیر کی کچھ عرصہ پہلے ہونے والی تیسری شادی اس کی وجہ ہو سکتی تھی، مگر اس کے علاوہ اور وجہ بھی ہو سکتی تھی یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔



نمرہ کی تدفین کے بعد آہستہ آہستہ تمام لوگ واپس جانا شروع ہو گئے، مگر جہانگیر معاذ اور اس کے دو بڑے بھائی اپنی فیملیز کے ساتھ ابھی وہیں تھے، جب ایک رات علیزہ نے لاؤنج میں سب کے سامنے ان کے اور ثمرین کے درمیان شدید جھگڑا دیکھا۔
وہ دونوں سب کے سامنے ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے تھے اور چلا رہے تھے۔ علیزہ کے لئے ایسا جھگڑا کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ نانو کے ہاں وہ اپنے انکلز اور ان کی بیویوں کے درمیان پچھلے کئی سالوں سے ایسے بہت سے جھگڑے ہوتے دیکھتی ہوئی آئی تھی۔
مگر اس بار جس انکشاف نے اسے ہولایا تھا، وہ نمرہ کی موت کی وجہ تھا۔ وہ نیند میں اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے نہیں گری تھی۔ اس نے خودکشی کی تھی اور اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے چھلانگ لگانے سے پہلے اس نے ایک خط میں تفصیلی طور پر اپنی موت کا ذمہ دار جہانگیر معاذ کو ٹھہرایاتھا۔
پولیس کو وہ خط مل گیا تھا۔ مگر چونکہ جہانگیر سفارت خانہ سے منسلک تھے اس لئے ہر چیز بڑی مہارت سے کو ر اپ کر لی گئی تھی۔ ایک سینئر ڈپلومیٹ کے حوالے سے اس طرح کا کوئی اسکینڈل پاکستانی حکومت کے لئے خاصی ندامت اور شرمندگی کا باعث بنتا۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر حکومت پاکستان کی درخواست پر پولیس نے اس خودکشی کو اتفاقی موت قرار دے کر فائل بند کر دی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!