Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

نمرہ پاکستان ایمبیسی کے ملٹری اتاشی کے ساتھ انوالو تھی۔ وہ جہانگیر معاذ سے بھی عمر میں بڑے اس شخص کے ساتھ شادی پر بضد تھی اور جہانگیر اس کے اس مطالبے کو کسی طور ماننے پر تیار نہیں تھے۔ ایمبیسی میں ان کی بیٹی اور اتاشی کے درمیان چلنے والے اس افیئر کے بارے میں ایمبیسی میں کام کرنے والا ہر شخص جانتا تھا اور یہ معاملہ جہانگیر کے لئے خاصی خفت کا باعث بن رہا تھا۔
اگر نمرہ ایمبیسی کے کسی چھوٹے موٹے اہلکار کے ساتھ انوالو ہوتی تو جہانگیر بہت پہلے اس شخص کا پتہ صاف کر چکے ہوتے۔ یا پھر چار دن کے اندر اس شخص کو ایمبیسی سے نکال دیتے۔ مگر یہاں وہ بری طرح پھنس گئے تھے۔
انہوں نے نمرہ کو زبردستی پاکستان بھجوانے کی کوشش کی، مگر وہ اس پر تیار نہیں ہوئی، اس نے واپس پاکستان بھجوائے جانے پر مجبور کرنے پر جہانگیر کو گھر سے چلے جانے اور شادی کر لینے کی دھمکی دی۔ مگر جہانگیر جانتے تھے کہ یہ صرف دھمکی ہی تھی۔ وہ قانونی اعتبار سے ابھی بالغ نہیں ہوئی تھی، اور وہ ملٹری اتاشی اتنا احمق نہیں تھا کہ وہ ایک نابالغ لڑکی سے شادی کرکے اپنا کیرئیر خطرے میں ڈالتا۔ دوسری طرف جہانگیر اس بات سے بھی واقف تھے کہ کچھ عرصے کے بعد جب وہ قانونی اعتبار سے بالغ ہو جائے گی تو اس وقت ان کے لئے نمرہ کو روکنا مشکل ہو جائے گا اس لئے وہ بہت مایوس ہو کر اسے پریشرائز کر رہے تھے اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ان کے کسی دباؤ میں نہیں آئے گی تب انہوں نے نمرہ کو دھمکی دی کہ وہ اگر واپس پاکستان نہیں گئی تو وہ نہ صرف ثمرین کو طلاق دے دیں گے، بلکہ نمرہ سمیت باقی دونوں بچوں کو بھی اپنی جائیداد سے عاق کر دیں گے۔



نمرہ ان کی دھمکی پر پہلی بار دباؤ میں آئی اور اس حربے کو کامیاب ہوتے دیکھ کر جہانگیر اس پر اپنا دباؤ بڑھاتے گئے۔ دوسری طرف وہ ملٹری اتاشی نمرہ کو مجبور کر رہا تھا کہ وہ واپس نہ جائے، شاید اسے بھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک بار وہ واپس پاکستان چلی گئی تو پھر اس کا واپس اس کے ہاتھ آنا مشکل تھا۔ نتیجہ وہی ہوا تھا جو ہو سکتا تھا۔ نمرہ ذہنی طور پر اتنی فرسٹرٹیڈ ہو گئی کہ اس نے خودکشی کر لی۔
اور اب جہانگیر اورثمرین ایک دوسر ے پر تابڑ توڑ الزامات لگانے میں مصروف تھے۔
”یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔ تم نے اپنی بیٹی کو میرے خلاف ہتھیار بنا کر استعمال کرنے کی کوشش کی، تم ایسا نہ کرتیں تو وہ کبھی خودکشی نہ کرتی۔” جہانگیر ثمرین پر دھاڑ رہے تھے۔
”میں نے اسے ہتھیار نہیں بنایا… میں تمہارے جیسے تھرڈ کلاس حربے استعمال نہیں کرتی، اس نے صرف تمہاری وجہ سے خودکشی کی ہے۔ تم اس طرح پریشرائز نہ کرتے تو وہ کبھی یہ قدم نہ اٹھاتی۔”
”میں اسے پریشرائز نہ کرتا اور اس پچپن سالہ شخص کو اپنا داماد بنا کر لوگوں کو خود پر ہنسنے کا موقع دیتا۔”
”اگر تم دوسروں کی اٹھارہ، بیس سالہ بیٹیوں کے ساتھ شادی کر سکتے ہو اور افیئر چلا سکتے ہو تو دوسرے بھی کر سکتے ہیں، پھر تم کو اعتراض کس چیز پر ہے۔” ثمرین اب بلند آواز میں چلا رہی تھیں۔
”اپنا منہ بند رکھو گھٹیا عورت۔”
”کیوں منہ بند رکھوں، پتا چلنا چاہئے تمہارے خاندان کو تم کیا گل کھلاتے پھر رہے ہو۔”
ثمرین بالکل خوفزدہ نہیں تھیں۔
”تم نے جان بوجھ کر اس کو اس طرح ٹریپ کیا۔ صرف اس لئے تاکہ مجھ کو بلیک میل کر سکو۔” جہانگیر ایک بار پھر بولنے لگے۔
”ہاں، سب کچھ میں نے ہی کیا تھا۔ مگر تمہارے لئے تو سب کچھ بہت اچھا ثابت ہوا ہے۔ جان چھوٹ گئی ہے تمہاری اپنی اولاد سے آزاد ہو گئے ہو تم… اب مزید عیش کر سکو گے۔” ثمرین کا لہجہ زہریلا تھا۔
”عیش تو میں کر سکوں گا یا نہیں، مگر ایک چیز تو طے ہے کہ تم اور میں اب اکٹھے نہیں چل سکتے۔”
”تمہارے ساتھ اکٹھے چلنا کون چاہتا ہے۔ کم از کم اب میں تو تمہاری بیوی بن کر نہیں رہ سکتی۔ میں کورٹ میں ڈائی وورس کے لئے کیس فائل کر رہی ہوں، اور میں تمام اثاثوں کی برابر تقسیم کا دعویٰ بھی کروں گی،’ ثمرین شاید اس بار بہت سے فیصلے پہلے ہی کر چکی تھیں۔



”اثاثے ؟ کون سے اثاثے؟ کون سے اثاثوں کی برابر تقسیم چاہتی ہو تم؟” جہانگیر کے اشتعال میں یک دم اضافہ ہو گیا۔
”تم بہت اچھی طرح جانتے ہو، میں کن اثاثوں کی بات کر رہی ہوں۔ تمہاری لوٹ مار کی کمائی کی بات کر رہی ہوں میں۔”
”میں تم کو ایک پائی بھی نہیں دوں گا۔”
”مجھے پائی چاہئے بھی نہیں، مجھے کروڑوں میں حصہ چاہئے۔” علیزہ بے یقینی سے ان دونوں کے درمیان ہونی والی گفتگو سن رہی تھی۔
اپنی بیٹی کی موت کے چوتھے دن وہ دونوں جائیداد کی تقسیم کی معاملے پر لڑ رہے تھے، علیزہ کی دل گرفتی اور رنجیدگی میں اضافہ ہو گیا، اسے پہلی بار احساس ہوا ، اپنی فیملی میں اس ذہنی اذیت سے گزرنے والی وہ اکیلی نہیں تھی۔ اس کی جنریشن کا ہر فرد تقریباً اسی قسم کے حا لات سے دوچار تھا۔
عمر سے اس کی ہمدردی میں یک بیک بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔
”کم از کم میں نے اپنے ماں باپ کو ا س طرح لڑتے تو نہیں دیکھا۔ اور عمر… وہ … تو شاید بچپن سے یہ سارے تماشے دیکھنے کا عادی ہے۔” وہ اس رات لاؤنج میں سے نکلتے ہوئے عمر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
عمر نانو کے گھر نہیں ٹھہرا تھا، وہ کہاں ٹھہرا ہوا تھا؟ علیزہ نہیں جانتی تھی مگر اس کا اندازہ تھا کہ وہ جوڈتھ کے ساتھ اسی ہوٹل میں مقیم تھا جہاں وہ پہلے گیا تھا۔ اگرچہ اس نے جوڈتھ کو تعزیت کے لئے نانو کے گھر آتے یا فون کرتے نہیں دیکھا مگر اسے پھر بھی یقین تھا کہ وہ پاکستان میں ہی ہے۔
اگلے چند دن کے بعد گھر ایک بار پھر خالی ہو گیا۔ نانو اور نانا کی افسردگی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ رنجیدگی کی ایک وجہ اگر نمرہ کی موت تھی تو دوسری وجہ جہانگیر اور ثمرین کے درمیان ہونی والی متوقع علیحدگی بھی تھی اور شاید وہ نمرہ کے چھوٹے بہن بھائیوں کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو رہے تھے۔ علیزہ ان کے بدلے ہوئے موڈز کو پہچاننے لگ گئی تھی۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!