اس نے اپنے بہت قریب کہیں بے تحاشا فائرنگ کی آواز سنی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ خوف کی ایک لہر اس کے پورے جسم سے گزر گئی۔
وہ یک دم ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ چند لمحے پہلے جو چیز اسے اپنا واہمہ محسوس ہوئی تھی ، وہ وہم نہیں تھی گھر کے باہر مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی… کتنا باہر ، وہ اندازہ نہیں کر سکی۔
رکے ہوئے سانس کے ساتھ اپنے بیڈ پر بیٹھی، وہ چند لمحوں تک صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔ کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ نائٹ بلب بھی آف تھا۔ وہ رات کو نائٹ بلب جلائے بغیر کبھی نہیں سوئی تھی مگر اس وقت…
ہوش میں آتے ہی اسے صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے دل کی دھڑکن کسی وقت بھی رک جائے گی سب کچھ چند لمحوں میں…
اندھیرے میں کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے تاریکی میں بیڈ سائیڈ لیمپ کو آن کرنے کی کوشش کی اور اس وقت اسے اندازہ ہوا کہ لائٹ نہیں تھی۔ اسے نائٹ بلب کے بجھے ہونے کی وجہ سمجھ میں آگئی۔
اگلا خیال اسے نانو کا آیا تھا۔ ”پتا نہیں وہ کہاں ہوں گی؟ شاید اپنے کمرے میں یا پھر۔۔۔” اس نے بیڈ کو ٹٹولتے ہوئے فرش پر کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ فائرنگ اب بھی کسی توقف کے بغیر جاری تھی۔ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اندھیرے میں دروازہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ رستے میں آنے والی کئی چیزوں سے ٹکرائی مگر دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔
دروازے کو کھول کر وہ کوریڈور میں نکل آئی۔ کوریڈور بھی مکمل طور پر تاریک تھا۔ فائرنگ میں اب اور بھی شدت آگئی تھی۔ علیزہ نے کوریڈور کی دیواروں کو ٹٹولتے ہوئے نانو کے کمرے تک پہنچنے کی کوشش کی ۔ نانو کے کمرے کے دروازے تک پہنچتے ہی اس نے وحشت کے عالم میں اسے دھڑ دھڑایا۔ دروازہ لا کڈ تھا۔
”نانو…! نانو…! دروازہ کھولیں۔ میں علیزہ ہوں۔” اس نے بلند آواز میں پکارنا شروع کر دیا۔ فائرنگ کی آواز کے دوران بھی اس نے اندر سے آنے والی نانو کی آواز سن لی۔
”علیزہ…! ٹھہرو میں آرہی ہوں… دروازہ کھولتی ہوں۔”
چند لمحوں کے بعد نانو نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔
”یہ کیا ہو رہا ہے؟” نانو بہت خوفزدہ لگ رہی تھیں۔
”مجھے نہیں معلوم نانو! یہ کیا ہو رہاہے؟”
”تم ٹھیک تو ہو؟”
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔ آپ ٹھیک ہیں؟”
”ہاں میں ابھی تمہارے پاس ہی آنا چاہ رہی تھی مگر اندھیرے میں رستہ۔۔۔” وہ خاصی سراسمیگی کے عالم میں کہہ رہی تھیں۔ ”اور لائٹ… پتا نہیں لائٹ کیوں چلی گئی ہے؟”
”نانو! یہ فائرنگ کہاں ہو رہی ہے؟”
”پتا نہیں… مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے۔۔۔” اندھیرے میں نانو کی آواز ابھری۔
”ہمیں فون کرنا چاہئے۔ پولیس کو۔” علیزہ نے بے تابی سے کہا۔
”کیا آپ نے پولیس کو فون کیا ہے؟”
”نہیں… میں تو کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہی… ابھی میں چند منٹ پہلے ہی اٹھی ہوں۔۔۔”
”پتا نہیں اصغر کہاں ہے؟” علیزہ نے چوکیدار کا نام لیا۔ ”میں لاؤنج میں جا کر اس سے انٹر کام پر فائرنگ کے بارے میں پوچھتی ہوں… ہو سکتا ہے یہ ہمارے گھر کے باہر نہ ہو رہی ہو۔” علیزہ نے کسی امید کے تحت کہا۔
”ٹھہرو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں، مجھے ٹارچ نکال لینے دو۔” نانو نے اسے روکتے ہوئے کہا۔ فائرنگ ابھی بھی اسی طرح جا ری تھی، اس کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
نانو اب خاموش تھیں۔ وہ کمرے میں ٹارچ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”نانو پلیز، جلدی کریں۔ اگر ٹارچ نہیں مل رہی تو رہنے دیں۔ کچن سے ٹارچ لے لیں گے یا پھر اسی طرح لاؤنج میں چلتے ہیں۔” علیزہ نے بے صبری سے کہا۔
”نہیں مل گئی ہے مجھے۔” نانو نے اسی وقت ٹارچ روشن کر دی۔ کمرے کی تاریکی یک دم ختم ہو گئی۔
وہ نانو کے ساتھ چلتے ہوئے لاؤنج میں آگئی۔ انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر اس نے گیٹ پر چوکیدار کے کیبن میں اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔
”کیا ہوا؟” نانو نے بے تابی سے پوچھا۔