Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میں یہ تو بھول ہی گئی تھی لائٹ نہیں ہے۔ انٹر کام کیسے کام کر سکتا ہے۔” علیزہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”کیا باہر نکل کر اسے دیکھیں۔”
وہ کہتے کہتے رک گئی۔” علیزہ بی بی! آپ باہر مت آئیے گا۔” پیچھے سے خانساماں کی آواز آئی تو وہ چونک کر مڑی۔
”کیوں؟”
”ہمارے گھر پر فائرنگ ہو رہی ہے۔”
”ہمارے گھر پر؟” اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
”ہاں، میں کچھ دیر پہلے باہر نکلا تھا مگر اصغر نے مجھے واپس بھجوا دیا۔” خانساماں نے چوکیدار کا نام لیا۔
”فائرنگ کون کر رہا ہے؟” علیزہ نے پوچھا۔
”یہ تو نہیں پتا… مگر اصغر کہہ رہا تھا کہ باہر کوئی گاڑی ہے اور کچھ لوگوں نے دیوار پھلانگنے کی کوشش بھی کی۔ وہ اندر آنا چاہ رہے تھے۔ کتوں کے بھونکنے پر اصغر نے انہیں دیکھ لیا اور وہ اندر نہیں آئے مگر اس کے بعد سے وہ مسلسل فائرنگ کر رہے ہیں۔ اصغر بھی ان پر جوابی فائرنگ کر رہا ہے۔ مگر وہ لوگ تعداد میں زیادہ ہیں اور ابھی تک گیٹ کے باہر موجود ہیں۔ا نہوں نے گیٹ پر بھی بری طرح فائرنگ کی ہے۔ ” وہ مرید بابا کی آواز میں لرزش محسوس کر سکتی تھی۔
”ہمارے گھرکے علاوہ ارد گرد کے تمام گھروں میں لائٹ موجود ہے۔ شاید انہوں نے بجلی کی سپلائی کاٹ دی ہے۔ اصغر خوفزدہ ہے کہ کہیں وہ اندر نہ آجائیں۔ اندھیرے میں وہ انہیں دیکھ نہیں سکے گا۔”



”مرید بابا! میں ابھی پولیس کو فون کرتی ہوں۔ آپ گھبرائیں مت، بس اپنے کوارٹر میں ہی رہیں۔”
علیزہ نے اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کی۔
”علیزہ،! یہ کیا ہو رہاہے؟” نانو بے حد خوفزدہ تھیں۔
”ہمیں پولیس کو فون کرنا چاہئے۔ ابھی پولیس آجائے گی، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
علیزہ نے انٹر کام بند کر دیا اور تیزی سے فون کی طرف بڑھی۔ ٹیلی فون کا ریسیور اٹھاتے ہی وہ ساکت ہو گئی۔
”کیا ہوا؟ … فون ملاؤ۔”
”نانو! فون ڈیڈ ہے، شاید کسی نے فون کی تار کاٹ دی ہے۔” اس نے کانپتے ہاتھ کے ساتھ ریسیور واپس رکھتے ہوئے کہا۔
”اور میرا موبائل بھی کام نہیں کر رہا، اس کا کارڈ ختم ہو چکا ہے۔”
”میرے خدا اب کیا ہو گا؟ اگر یہ لوگ اندر آگئے تو ؟” نانو اپنے قدموں پر کھڑی نہیں رہ سکیں۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئیں۔
”نہیں ، وہ اندر کیسے آئیں گے؟ پورا علاقہ جاگ چکا ہے… اتنی فائرنگ ہو رہی ہے۔ ابھی کچھ دیر میں ساتھ والے گھروں کے چوکیدار بھی باہر نکل آئیں گے۔ پھر تو یہ لوگ بھاگ جائیں گے۔” علیزہ نے اپنے خشک ہوتے ہوئے حلق کے ساتھ کہا۔
”بے وقوفی کی باتیں مت کرو علیزہ۔” نانو نے اسے ڈانٹا ”کون اپنے گھر سے اتنی بے تحاشا فائرنگ میں باہر نکلے گا؟ کوئی نہیں۔۔۔”
”مگر نانو! وہ لوگ پولیس کو ضرور اطلاع کر دیں گے، بلکہ ہو سکتا ہے اب تک وہ پولیس کو انفارم کر چکے ہوں۔ ابھی پولیس آنے والی ہی ہو گی۔”
علیزہ نے کہا۔ نانو اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے خاموش رہیں۔
ٹارچ کی مدہم روشنی میں بے تحاشا فائرنگ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازوں میں ، وہ چند لمحے دم سادھے ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔
”یہ سب عمر کی وجہ سے ہوا۔ اس نے پولیس گارڈ کیوں ہٹا لی ہے۔” نانو اچانک غصیلی آواز میں بولیں۔ ”شام کو پولیس گارڈ ہٹی اوراب ہم یہ سب بھگت رہے ہیں۔”
علیزہ کچھ نہیں بول سکی، وہ کچھ چور سی بن گئی۔ وہ انہیں بتا نہیں سکتی تھی کہ یہ سب کچھ خود اس کی وجہ سے…
نانو ایک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ ” میں مرید سے بات کرتی ہوں۔ وہ کچھ کرے۔”
وہ ٹارچ پکڑے باہر کی طرف بڑھیں، علیزہ خاموشی سے انہیں جاتا دیکھتی رہی۔ نانو اب مرید بابا سے بات کر رہی تھیں۔
”تم کسی طرح کوارٹر سے باہر نکل کرساتھ والے گھر کی دیوار پھلانگ کر ان کے ہاں جانے کی کوشش کرو۔ انہیں ساری صورت حال بتاؤ۔”



علیزہ نے اچانک ان کے پاس آتے ہوئے ان کی بات کاٹی۔
”مگر نانو! مرید بابا کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اگر ساتھ والوں کے چوکیدار نے ان پر فائرنگ کر دی تو… اور وہاں بھی تو کتے موجود ہیں۔”
”تو پھر کیا کیا جائے۔ آخر کتنی دیر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا جا سکتا ہے۔ ” نانو نے اسے جواب دیا
علیزہ ان کی گھبراہٹ اور پریشانی کا اندازہ کر سکتی تھی۔ وہ خود بھی ان ہی کیفیات سے دوچار تھی مگر وہ پھر بھی سوچ رہی تھی کہ چند منٹوں کے بعد پولیس کسی نہ کسی طرح وہاں آجائے گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ چند دن پہلے ہونے والے واقعہ نے اگر ایک طرف اسے خوف اور سراسمیگی سے دوچار کیا تھا تو دوسری طرف وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ اسے مضبوط پشت پناہی حاصل ہے اور ایسی کسی صورتِ حال میں وہ کسی عام شہری کی طرح غیر محفوظ نہیں تھی اس لئے پریشان ہونے کے باوجود وہ پچھلی بار کی طرح سراسمیگی کا شکار نہیں تھی۔
”پتا نہیں اور کیا کیا مصیبت ابھی باقی ہے۔” نانو نے صوفے کی طرف جاتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ”اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی اور اب اچانک۔۔۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!