Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی اور سر پکڑے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ علیزہ ان کی ادھوری بات بہت اچھی طرح سمجھ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کچھ اسی کی وجہ سے ہو رہا تھا اور پچھلے کچھ دنوں سے نانو کے لئے وہی کسی نہ کسی طرح پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ پولیس گارڈ ہٹائے جاتے ہی اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس کا خیال تھا کہ عباس اور عمر ضرورت سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی… مگر اس وقت وہاں بیٹھے، وہ دل ہی دل میں اعتراف کر رہی تھی کہ وہ بہت سے معاملات میں ضرورت سے زیادہ امیچیور تھی۔
اگر اسے معمولی سا شائبہ بھی ہوتا کہ اسے ایسی کسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تو وہ عمر کو کبھی پولیس گارڈ ہٹانے نہ دیتی۔ اگرچہ وہ جانتی تھی کہ پولیس گارڈ ہٹانے کی واحد وجہ اس کی اپنی ذات تھی۔ اگر وہ جسٹس نیاز کو فون نہ کرتی تو شاید سب کچھ پہلے ہی کی طرح رہتا۔ وہ اس قدر غیر محفوظ نہ ہوتی مگر ان تمام اعترافات کے باوجود وہ اس وقت وہاں پر بالکل بے بس بیٹھی ہوئی تھی۔



باہر ہونے والی فائرنگ یک دم بند ہو گئی۔ وہ دونوں چونک گئیں۔ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ابھی بھی پہلے کی طرح آرہی تھیں۔ مگر فائرنگ کی آواز بند ہو گئی تھی۔
”مجھے لگتا ہے وہ لوگ چلے گئے ہیں۔” علیزہ نے غیر معمولی پر امیدی سے کہا۔
”ہاں شاید ۔۔۔” نانو نے مدہم آواز میں کہا۔ وہ باہر کان لگائے بیٹھی تھیں۔
”میں مرید بابا سے بات کرتی ہوں۔ وہ باہر نکل کر دیکھیں کہ چوکیدار کہاں ہے۔ ” علیزہ نے باہر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ نانو خاموش رہیں۔
اسی وقت لاؤنج کے دروازے کے بیرونی جانب کچھ آہٹیں ابھریں، وہ دونوں یک دم چونک گئیں۔
”میرا خیال ہے مرید بابا اور چوکیدار آئے ہیں… وہ لوگ یقیناً بھاگ گئے ہیں۔” علیزہ نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔ وہ بے اختیار لاؤنج کے دروازسے کی طرف گئی اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھول دیتی۔ نانو نے اسے روک دیا۔
”دروازہ مت کھولو، پہلے تصدیق کر لو کہ باہر چوکیدار یا مرید ہی ہے۔”
نانو نے دبی آواز میں کہا۔ علیزہ رک گئی۔ دروازے سے کچھ فاصلے پر رک کر اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے کی دوسری جانب کچھ مدہم آوازیں ابھر رہی تھیں مگر ان میں سے کوئی آوز بھی شناسا نہیں تھی۔ پھر کسی نے دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھ کر اسے گھمایا۔ علیزہ کے پورے جسم میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ مرید بابا یا اصغر اگر دروازے کے دوسری طرف موجود ہوتے تو وہ کبھی اس طرح دروازہ کھولنے کی کوشش نہ کرتے۔ وہ بلند آواز میں اجازت لیتے۔
اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس نے خوف کے عالم میں پلٹ کر نانو کو دیکھا۔ وہ بھی صوفے پر بالکل ساکت بیٹھی تھیں۔
”باہر کون ہے؟” علیزہ نے یک دم اپنی آواز کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔ دروازے کے باہر یک دم خاموشی چھا گئی۔
”باہر کون ہے؟” اس نے ایک بار پھر بلند آواز میں کہا اس بار بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ وہ یک دم بدک کر نانو کی طرف گئی۔



”اب کیا ہو گا نانو؟ وہ لوگ اندر آچکے ہیں… اور پتا نہیں… پتا نہیں انہوں نے چوکیدار اور مرید بابا کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟”
اس نے نانو کے قریب جا کر دبی ہوئی آواز میں کہا۔ نانو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”پتا نہیں اب کیا ہو گا؟”
”اگریہ لوگ دروازہ کھول کر اندر آگئے تو؟”
”علیزہ ہمیں لاؤنج سے چلے جانا چاہئے۔” نانو نے دبی ہوئی آواز میں سرگوشی کی۔
”کہاں چلے جانے چاہئے؟”
”اندر… اندر کسی کمرے میں۔”
”نانو! وہ وہاں بھی آجائیں گے… ہم کہاں چھپیں گے… وہ ہمیں ڈھونڈ لیں گے۔” وہ اب روہانسی ہو رہی تھی۔
دروازے پر ایک بار پھر آوازیں گونج رہی تھیں۔ ناب کو ایک مرتبہ پھر گھمایا جا رہا تھا۔ پھر باہر سے ایک بھاری اور بلند مردانہ آواز میں کسی نے کہا۔
”ہم لوگ جانتے ہیں اندر صرف تم دونوں ہو… ہم صرف علیزہ کو یہاں سے لے جانے کے لئے آئے ہیں… اور اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے… بہتر ہے تم دونوں دروازہ کھول دو… ورنہ ہم دروازہ توڑ دیں گے۔”
درشتی اور کرختگی سے کہے گئے، ان جملوں نے اندر موجود دونوں عورتوں کے باقی ماندہ حواس بھی گم کر دیئے تھے۔
”میرا نام… یہ میرا نام کیسے جانتے ہیں؟ ” علیزہ نے خوف اور بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”ان کو کس نے بھیجاہے…؟ یا اللہ… علیزہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟” نانو یک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔
”ہمیں بیسمنٹ میں چلے جانے چاہئے۔ یہ لوگ وہاں نہیں آسکیں گے۔ جلدی کرو۔” وہ علیزہ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگیں۔
”جب تک پولیس نہیں آجائے ہم وہیں چھپے رہیں گے۔” تیزی سے اس کے ساتھ چلتے ہوئے نانو نے کہا۔ وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ نانو کی ہدایت پر بلا چوں و چرا عمل کر رہی تھی۔



تہہ خانہ کا دروازہ اندر سے لا ک کرنے کے بعد نانو نے ٹارچ اندر سے بجھا دی۔ وہ تاریکی میں۔ ایک پرانے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ جو وہاں پڑا ہوا تھا۔ وہاں بہت زیادہ پرانا سامان پڑا ہوا تھا اور وہ ایسے سامان کو اسٹور کرنے کے لئے ہی کام میں لایا جا رہا تھا۔ وہاں بیٹھ کر وہ اوپر گھر میں ہونے والی کسی کارروائی کو جان نہیں سکتی تھیں۔
علیزہ کا ذہن اب بھی اس شخص کے کہے جانے والے جملے میں اٹکا ہوا تھا۔
”ہم علیزہ کو لینے آئے ہیں۔ میرا نام… میرا ایڈریس… آخر کس لئے… یہ کون لوگ ہیں؟” اسے اپنا آپ کسی مکڑی کے جال میں پھنسا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ چند دن پہلے کی پر سکون زندگی یک دم جیسے قصۂ پارینہ بن گئی تھی اور اب… اب آگے اور کیا ہونے والا تھا۔
”یہ کون لوگ ہوسکتے ہیں۔ علیزہ؟ ” نانو کی متفکر آواز میں اندھیرے میں گونجی۔
”میں نہیں جانتی نانو…! میں کیا بتا سکتی ہوں۔” اس نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کہا۔
”وہ لوگ تمہارا نام لے رہے تھے۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!